Yaseen malik
File photo

نئی دہلی دھماکے کا یاسین ملک پر مقدمے سے کوئی تعلق ہے؟

 

 

نئی دہلی ہائی کورٹ میں کشمیر ی حریت پسندپر مقدمے کی سماعت10نومبرکوہوئی۔ 10نومبرکوہی دہلی میں بم دھماکہ ہوا۔سوال پیداہوتا ہے کہ یہ” اتفاق ” ہے یا اہتمام۔

 

شبہات پیداہورہے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ بھارتی ایجنسیوں نے ،بندکمرہ سماعت میںیاسین ملک کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ دلانے کے لیے ، یہ ڈرامہ رچایاہو۔ تازہ سماعت میں مزید کارروائی ان کیمرہ چلانے کے لیے سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیا گیاہے۔

 

بھارتی قومی تحقیقاتی ایجنسی(این آئی اے)نے دہلی ہائی کورٹ سے کشمیری حریت پسند یاسین ملک کو موت کی سزا دینے کی درخواست پر ان کیمرہ سماعت کا مطالبہ کیاہے۔این آئی اے نے یہ درخواست جسٹس وویک چودھری اور منوج جین پرمشتمل بنچ کے سامنے کی، جس میں مقدمے کی حساسیت اور سیکورٹی خدشات حوالہ دیا گیا۔

 

عدالت نے درخواست پر دلائل سننے کے لیے 28جنوری 2026 کی تاریخ مقرر کردی ۔

 

10نومبر کو مقدمے کی سماعت ہوئی ۔جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(جے کے ایل ایف)کے چیئرمین یاسین ملک نئی دہلی کی تہاڑ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔انہوںنے کارروائی میں طویل تاخیر پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔یاسین ملک نے کہا کہ این آئی اے کو اپیل دائر کیے ہوئے تین سال ہو چکے ہیں۔ کسی شخص کے لیے اس بارے میں سوچنا کہ اسے موت کی سزا سنائی جائے گی یا نہیں، نفسیاتی اذیت ہے۔

 

یاسین ملک نے انکشاف کیا کہ جب سے این آئی اے نے سزائے موت کے لیے درخواست دائر کی ہے، تب سے انہیں مسلسل نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔این آئی اے کے تاخیری حربوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بنچ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کیس میں جلد فیصلہ سنائے۔

 

این آئی اے نے اپنی درخواست میں موقف اختیارکررکھاہے کہ کشمیر ی رہنما کی عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کیا جانا چاہئے۔تاہم قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے وکلانے اس اقدام کو بھارت کے سیاسی انتقام کا حصہ قرار دیا ہے جس کا مقصد کشمیر کی حقیقی قیادت کو خاموش کرنا ہے۔

 

بند دروازے میں مقدمے کی سماعت کے لیے این آئی اے کے تازہ ترین اقدام نے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا ہے، سیاسی اور سول سوسائٹی کے حلقے اسے مودی حکومت کی طرف سے عدالتی ظلم و ستم کے ذریعے کشمیری قیادت کو دبانے کی ایک مایوس کن کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 

تہاڑ جیل کے حکام اور بھارتی ایجنسیوں کا دعوی ہے کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر سماعت کی رازداری ضروری ہے، لیکن انسانی اور قانونی حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد یاسین ملک کے معاملے میں شفافیت اور انصاف کی عدم موجودگی کو چھپانا ہے۔

 

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ(جے کے ایل ایف)نے دہلی ہائی کورٹ میں نظر بند پارٹی چیئرمین محمد یاسین ملک کے خلاف جاری عدالتی کارروائی میں تاخیر کے بھارتی حربوں کی شدید مذمت کی ہے۔

 

جے کے ایل ایف کے چیف ترجمان محمد رفیق ڈار نے اسلام آباد میں جاری ایک بیان میں بھارتی عدالت کی سماعت کے دوران این آئی اے کی ان کیمرہ کارروائی کی درخواست پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ اس طرح کے اقدام کا مقصد کیس کے اہم حقائق کو چھپانا اور یاسین ملک کو منصفانہ ٹرائل سے محروم کرنا ہے۔

 

جے کے ایل ایف ترجمان کا مزید کہناتھا کہ ایسی درخواست کی اجازت دینا بنیادی طور پر بھارتی حکومت کی طرف سے ترتیب دیے گئے یک طرفہ مقدمے کی راہ ہموار کرے گا۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ یاسین ملک کی چھ سال سے زیادہ قید تنہائی اور تہاڑ جیل میں ناکافی طبی علاج نے ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

 

واضح رہے کہ این آئی اے نے ٹرائل کورٹ کے 2022کے فیصلے کو چیلنج کیا ہواہے جس نے یاسین ملک کو غیر قانونی سرگرمیاں(روک تھام) ایکٹ اور آئی پی سی کے تحت الزامات کا اعتراف کرنے کے بعد عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

 

سزا کے خلاف اپیل کرتے ہوئے، ایجنسی نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گرد کو صرف اس لیے عمر قید کی سزا نہیں دی جا سکتی کہ اس نے جرم قبول کر لیا ہے اور اس نے مقدمے سے گزرنے کا انتخاب نہیں کیا ۔

 

پھانسی کی سزا میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے، این آئی اے نے کہا کہ اگر ایسے خوفناک دہشت گردوں کو قصوروار ہونے کی وجہ سے سزائے موت نہیں دی جاتی، تو سزا دینے کی پالیسی کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا، اور دہشت گردوں کے پاس سزائے موت سے بچنے کا راستہ ہوگا۔

 

ٹرائل کورٹ، جس نے سزائے موت کے لیے این آئی اے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا، نے کہا تھا کہ یاسین ملک پر بھارت کے وجود کی آئیڈیالوجی کو
متاثر کرنے کے الزامات ہیں اور ان کے اقدامات کا مقصد جموں و کشمیر کو یونین آف انڈیا سے الگ کرنا تھا۔

 

یاسین ملک نے اس مقدمے میں وکیل مقرر کرنے سے انکار کر دیا تھا اور خود بحث کرنے کا انتخاب کیا تھا، اگست 2024کے عدالتی حکم کے بعد عملی طور پر پیش ہو رہے ہیں جس نے سکیورٹی خطرات کی وجہ سے ان کی جسمانی موجودگی پر پابندی عائد کر دی تھی۔

 

کالعدم جے کے ایل ایف کے سربراہ کو 1990میں سری نگر میں چار آئی اے ایف اہلکاروں کے قتل کے مقدمے کا بھی سامنا ہے، جس میں اہم عینی شاہد ایک ریٹائرڈ فضائیہ افسر نے انہیں مرکزی شوٹر کے طور پر شناخت کیا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔