اسلام آباد، وانا حملوں میں افغان باشندے ملوث ہونے پر پاکستان کا آئندہ لائحہ عمل تیار

اسلام آباد اور وانا حملوں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کی تصدیق ہونے کے بعد پاکستان نے طالبان حکومت کو سخت پیغام پہنچاتے ہوئے تمام ممکنہ سفارتی، سیکیورٹی اور علاقائی آپشنز پر غور شروع کر دیا ہے۔

سیکیورٹی اداروں کی تحقیقات میں واضح ہوا کہ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس دھماکے اور وانا کیڈٹ کالج حملے میں شامل خودکش بمبار افغان باشندے تھے۔ ان انکشافات نے اسلام آباد کی تشویش میں اضافہ کیا ہے کہ افغان سرزمین بدستور کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان حملوں میں افغان باشندے ملوث ہونے کے "ٹھوس شواہد” ترکی اور قطر جیسے ثالث ممالک کے ساتھ شیئر کرنے جا رہا ہے، اور یہ شواہد طالبان حکومت کے سامنے بھی رکھے جائیں گے۔ اس کا مقصد کابل پر دباؤ بڑھانا اور افغان سرزمین سے سرگرم گروہوں کے خلاف عملی اقدام کا مطالبہ مؤثر بنانا ہے۔

ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ اسلام آباد اب "تمام آپشنز کا جائزہ” لے رہا ہے کیونکہ "احتیاط اور برداشت کی پالیسی” نتائج نہیں دے رہی۔
ان کے بقول اگر طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات نہ کیے تو پاکستان اپنی سیکیورٹی ترجیحات کے مطابق فیصلے کرے گا۔

زرائع کے مطابق ممکنہ اقدامات میں سفارتی دباؤ میں اضافہ، علاقائی شراکت داروں سے مزید مشاورت، اور سرحدی سیکیورٹی کے حوالے سے سخت اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان ترکی، قطر اور چین سمیت دوست ممالک سے رابطے میں ہے تاکہ آئندہ حکمت عملی پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی پارلیمنٹ میں اعتراف کیا کہ رواں ہفتے کے دونوں خودکش حملہ آور افغان تھے، اور انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اس معاملے کو بارہا کابل کے سامنے اٹھا چکا ہے۔

دوسری جانب وزارت اطلاعات کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وانا کیڈٹ کالج حملہ افغانستان میں منصوبہ بندی کے بعد کیا گیا اور اس میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی افغان سرزمین سے فراہم ہوا۔

ان شواہد کے منظر عام پر آنے کے بعد اسلام آباد کی پالیسی میں سختی کے امکانات بڑھ گئے ہیں—اور حکام کے مطابق "خاموش برداشت کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔