فائل فوٹو
فائل فوٹو

پختونخوا میں سیاسی رہنمائوں کے حجرے ویران

محمد قاسم :
صوبہ خیبرپختون میں سیاست کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہونے لگا ہے۔ وہ سیاست جس کا مرکز کبھی عوامی بیٹھک اور حجرے ہوا کرتے تھے، اب وہ ویران ہو گئے ہیں۔ سیاست کمروں اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں تک محدود ہو کر ر ہ گئی ہے۔ جس کی بڑی وجہ صوبے میں امن و امان کی انتہائی خراب صورتحال ہے اور روز افزوں مہنگائی ہے۔ سیاسی رہنما اب شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی شریک نہیں ہو رہے اور تعزیت کا کام بھی اپنے ملازمین کے سپرد کر دیا ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے پشاورکے کسی بھی علاقے میں کوئی سیاسی رہنما عوام کے درمیان نہیں گیا۔

پشاور کے شہریوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ گزشتہ حکومتوں میں سیاسی رہنما اور خاص کر ایم پی ایز اور ایم این ایز ان کے ساتھ خوشی و غمی میں شریک رہتے اور مالی مدد بھی کرتے تھے۔ تاہم اب یہ روایت دم توڑتی جارہی ہے اور سیاسی رہنما عوام سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ انتخابی عمل کے دوران جو وعدے لوگوں کے ساتھ کیے گئے، اب ان کے برعکس کام ہو رہا ہے۔

عوام اپنے حلقے کے اسمبلی ممبران کو بھی دیکھنے کیلئے ترس گئے ہیں۔ جبکہ مہنگائی کے بے قابو طوفان، سیکیورٹی خدشات اور سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات نے بھی خیبرپختون کی سیاسی اور سماجی فضا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ عوام اور سیاسی قیادت کے درمیان بڑھتی ہوئی یہ دوریاں ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر تی جارہی ہیں۔

دوسری جانب سیکورٹی صورتحال کے باعث بعض سیاسی شخصیات جن میں عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما غلام احمد بلور بھی شامل ہیں، اسلام آباد منتقل ہو گئے ہیں۔ بلور خاندان پشاور کے شہریوں کے ہر غم اور خوشی میں شریک رہا اور ضرورت مندوں کی ہر ضرورت بلور ہائوس سے پوری ہوتی رہی۔ لیکن اب غلام احمد بلور اسلام آبا د میں رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ اے این پی کی سینئر رہنما ثمر ہارون بلور نے پارٹی کو خیر بادکہہ کر نون لیگ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

دوسری جانب صوبے میں مہنگائی نے عام شہری کی زندگی مشکل بنادی ہے۔ سیاسی قیادت مہنگائی کی ساری ذمہ داری آئی ایم ایف پر ڈال رہی ہے۔ مگر عوامی تاثر اس کے برعکس ہے۔ سیاسی رہنما عوام کے سوالوں سے بچنے کیلئے غائب ہیں۔ پشاور کے شہر ی بھی اب سیاست میں دلچسپی کم ہی لے رہے ہیں اور اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔

اندرون شہر سے تعلق رکھنے والے ملک پرویز نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سیاسی رہنما جن سے عوام کو یہ امید رہتی تھی کہ وہ کامیاب ہو کر عوامی خدمت کریں گے اور جو مسائل لوگوں کو درپیش ہیں ان کو حل کریں گے، لیکن اب تو ایک پائپ بچھانے کیلئے بھی کئی کئی مرتبہ درخواستیں دینا پڑتی ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مین ہولوں کے ڈھکن ٹوٹ چکے ہیں۔ یہ چھوٹے موٹے مسئلے بھی حل نہیں کیے جارہے تو مہنگائی اور امن و امان جیسے مسائل کو کیسے حل کیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سابقہ ادوار میں جو بھی ایم پی اے یا ایم این اے ہوتا تھا، وہ ہفتے میں ایک سے دو مرتبہ لازمی طور پر اپنے حلقے کے عوام کا حال احوال پوچھنے کیلئے علاقے میں آتا تھا۔ حجرے کھلے ہوتے تھے۔ لیکن اب لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کا منتخب نمائندہ پشاور میں ہے یا اسلا م آباد کے کسی بنگلے میں رہائش پذیر ہے۔ مہینوں ہو گئے عوام نے اپنے کسی ایم پی اے یا ایم این اے کو نہیں دیکھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔