فائل فوٹو
فائل فوٹو

’’میں اب کی بار عشق عمران میں مارا جاؤں گا‘‘

امت رپورٹ :

’’نہیں مروں گا اب کسی جنگ میں یہ سوچ لیا… میں اب کی بار عشق عمران میں مارا جاؤں گا‘‘۔ تقریباً سوا مہینے پہلے جب وزیرِ اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد سہیل آفریدی نے اپنی پہلی تقریر کا آغاز اس بے وزن شعر سے کیا تو ان کی برابر والی سیٹ پر بیٹھے سابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنی بھاری مونچھوں کے نیچے زیر لب مسکرا رہے تھے۔ شاید وہ دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں ’’اس سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے میرے بھی یہی جذبات ہوا کرتے تھے‘‘۔ تاہم پی ٹی آئی اور خاص طور پر عمران خان کے کلٹ پیروکار وں میں سہیل آفریدی کے اس شعر نے جو عموماً رکشوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے، امید کی نئی شمع روشن کردی۔ ان کے نزدیک عمران خان کی رہائی کا جو مشن گنڈاپور حکمرانی کی آسائشوں میں کھو کر پورا نہ کرسکے، وہ اب سہیل آفریدی کر گزریں گے۔ لیکن عمران کے یہ سادہ لوح کلٹ پیروکار جو ٹرمپ سے لے کر سہیل آفریدی تک دھوکا کھارہے ہیں، انہیں کیا پتا کہ پردے کے پیچھے کے کھیل کچھ اور ہوتے ہیں۔

عمران خان کی رہائی کے لیے ایک فیصلہ کن احتجاجی تحریک کو لے کر جس سہیل آفریدی سے کلٹ پیروکاروں نے اب توقعات وابستہ کی ہیں، وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ان کی اور ان کے اردگرد جمع ہونے والے پارٹی رہنمائوں کی ترجیحات گنڈاپور سے مختلف نہیں۔ اس کا اندازہ وقت گزرنے کے ساتھ ہوتا رہے گا۔ فی الحال اس حوالے سے ایک بند کمرے کی کہانی بیان کرتے چلیں جو پی ٹی آئی پشاور سے تعلق رکھنے والے گھر کے ایک بھیدی نے سنائی۔ اس بھیدی کا کہنا تھا کہ وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد عمران خان کے عشق میں مرجانے کے جذباتی نعرے لگانے والے سہیل آفریدی کو جب صوبائی کابینہ تشکیل دینے کا مرحلہ درپیش ہوا تو انہیں ان پارٹی رہنمائوں نے گھیر لیا، جن میں سے اکثر کو گنڈاپور نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں کھڈے لائن لگایا ہوا تھا، یا جن سے گنڈاپور کی دیرینہ عداوت تھی۔

بھیدی کے بقول وہ کے پی ہاؤس اسلام آباد کے سائیڈ روم میں بیٹھا تھا۔ سامنے اسد قیصر، جنید اکبر، شہرام ترہ کئی اور عاطف خان، سہیل آفریدی کو گھیرے بیٹھے تھے۔ یہ سارے گنڈاپور کے مخالف کیمپ سے تھے اور گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ کی کرسی سے اتارا جانا یقیناً ان کی بھی کامیابی تھی۔ سہیل آفریدی اپنے حامی ان سینئرز کی بات نہایت انہماک سے سن رہے تھے۔ لیکن دلچسپ امر ہے کہ یہ گفتگو صوبے کی بہتری کے نئے لائحہ عمل یا عمران خان کی رہائی سے متعلق کسی احتجاجی منصوبہ بندی کے بارے میں نہیں تھی، بلکہ ان میں سے ہر رہنما نئی صوبائی کابینہ میں اپنے پیاروں کو شامل کرانے کے لیے فرمائشیں کر رہا تھا۔

کسی کا کہنا تھا کہ میرے بھائی کو صوبائی کابینہ میں فٹ کرو، کسی کا اصرار تھا کہ اس کے فلاں عزیز یا بندے کو صوبائی کابینہ میں لیا جائے۔ لیکن اس تین گھنٹے کی ڈسکشن کے دوران کسی موقع پر ایک بار بھی یہ ذکر نہیں ہوا کہ عمران خان کی رہائی کے لیے نئی حکمت عملی کیا ہونی چاہیئے۔ کسی نے بھی بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے حوالے سے بات نہیں کی۔ سب صوبائی وزارتوں اور مشیروں کے عہدوں کی بندر بانٹ پر بات کرتے رہے۔

بھیدی کے مطابق اس گفتگو کے دوران بیرسٹر گوہر بھی آگئے۔ شہرام ترہ کئی اپنے بھائی فیصل ترہ کئی کو صوبائی وزیر تعلیم بنانے کے لیے زور ڈال رہے تھے۔ گنڈا پور کابینہ میں بھی ان کے پاس یہی قلمدان تھا۔ اب انہیں لیبر ڈیپارٹمنٹ کا قلمدان مل چکا ہے ۔ اسی طرح اسد قیصر اپنے بھائی عاقب اللہ کے لیے بلدیات کی وزارت کے خواہشمند تھے کہ اس میں بڑا پیسہ ہے۔ سہیل آفریدی نے اتنی لاج رکھی کہ عاقب اللہ کو ریلیف ، بحالی اور آباد کاری کا قلمدان دے دیا، تاہم وزارت بلدیات نہیں دی۔ اس طویل نشست کے دوران عاطف خان کا مطالبہ تھا کہ ان کے ضلع مردان میں انتظامیہ میں ایسے کردار نہ لگائے جائیں جو گنڈاپور کے کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں۔

جنید اکبر اپنے فنانسر ریاض خان کو ایڈجسٹ کرنے کی بات کررہے تھے۔ بھیدی نے بتایا ریاض ساری عمر نون لیگ میں رہے، انہیں پی ٹی آئی میں جنید اکبر ہی لے کر آئے تھے، بعد ازاں الیکشن میں صوبائی سیٹ کے لیے ٹکٹ بھی دلایا۔ وہ ایم پی اے بن گئے۔ اب سہیل آفریدی کو کہہ کر جنید اکبر انہیں وزارت آبپاشی کا قلمدان دلانے میں کامیاب رہے۔ اسی طرح سہیل آفریدی نے بیرسٹر گوہر کو بھی مایوس نہیں کیا، وہ اپنے ایک منظور نظر فخر جہاں کی سفارش لے کر آئے تھے۔ عرضی منظور ہوئی اور فخر جہاں کوایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا منسٹر بنا دیا گیا۔ چونکہ بیرسٹر گوہر کے علی امین گنڈاپور سے بھی اچھے تعلقات تھے تو گنڈاپور کی کابینہ میں فخر جہاں کو وزارت کھیل کا قلمدان ملا ہوا تھا۔ قصہ مختصر اس تین گھنٹے کی نشست میں وزارتوں کی بندر بانٹ سے متعلق سب کی مرادیں پوری ہوئیں لیکن عمران خان کی رہائی سے متعلق کوئی ڈسکشن نہیں ہوئی۔

یہ تاثر عام ہے کہ عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو اس لئے ہٹایا کہ وہ ان کی رہائی کے لیے بڑھکیں مارنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے تھے۔ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے دونوں گروپوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کی اکثریت کا بھی شکوا تھا کہ علی امین گنڈا پور اور ان کے ساتھی حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں، عمران خان کی رہائی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ جبکہ سہیل آفریدی کو وزارت اعلیٰ کا قلمدان دے کر اس جذبے کے ساتھ میدان میں اتارا گیا کہ وہ گنڈاپور کے برعکس عمران خان کی رہائی کے لیے تن من دھن کی بازی لگادیں گے۔ تاہم انہیں وزیر اعلیٰ بنے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اور انہوں نے بھی اب تک عمران خان کی رہائی سے متعلق تحریک چلانے کے بارے میں لفظی گولہ باری تو کی ہے، لیکن عملی طور پر فی الحال ان کا ایسا کوئی ارادہ دکھائی نہیں دے رہا۔

وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اب تک ان کے کریڈٹ پر اپنے ہی صوبے میں دو تین ناکام احتجاجی جلسے ضرور ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک ذریعے کے بقول اقتدار میں آنے سے پہلے خیالات اور جذبات کچھ اور ہوتے ہیں، تاہم اہم عہدے پر بیٹھنے کے بعد جب زمینی حقائق کا اندازہ ہوتا ہے تو جذبات اور خیالات دونوں بدل جاتے ہیں۔ سہیل آفریدی کو بھی اب بتدریج زمینی حقائق کا اندازہ ہورہا ہے، اس لئے وہ محض بڑھکیں مارنے پر اکتفا کررہے ہیں۔ ابھی ابتدا ہے، اگر مزید چند ماہ اسی طرح گزرتے ہیں تو پھر پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم جس نے پہلے گنڈا پور کی طرف اپنی توپیں کی ہوئی تھیں ، ان کی توپوں کا رخ سہیل آفریدی کی طرف ہوسکتا ہے۔ بلکہ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ٹرولنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ پریشر خود سہیل آفریدی بھی محسوس کر رہے ہیں۔

اڈیالہ جیل کے باہر سے عمران خان کی بہنوں کی گرفتاری اور رہائی کے معاملے پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر اٹھنے والے طوفان کے بعد اپنے ایکس اکائونٹ پر وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی دھمکی آمیز پوسٹ، اسی دبائو کا شاخسانہ دکھائی دیتی ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے ’’پنجاب پولیس کے غنڈوں کی جانب سے عمران خان کی بہنوں پر تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ یاد رکھنا یہ سب لکھا جارہا ہے۔ اب یہ حد سے زیادہ ہوگیا ہے اور حالات کو زبردستی اس طرف لے جایا جارہا ہے، جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔‘‘ ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے دباؤ میں سہیل آفریدی چھبیس نومبر جیسا کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن ایسی صورت میں ان کی حکومت کا بستر گول کردیا جائے گا، یہ پیغام انہیں اشارے کنایؤں میں دیا جاچکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔