قومی اسمبلی ۔فائل فوٹو

ضمنی الیکشن کے بعد حکومت کا پیپلز پارٹی پر انحصار ختم ہو گیا

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے شاندار کلین سویپ کے بعد حکمران جماعت کی قومی اسمبلی میں پوزیشن مضبوط ہو گئی اور سادہ اکثریت کے لیے پیپلز پارٹی پر انحصار کی ضرورت ختم ہو گئی۔ مزید 6 نشستیں حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی مجموعی نشستیں بڑھ کر 132 ہو گئیں۔

سادہ اکثریت کے لیے 169 اراکین درکار ہوتے ہیں جو پیپلز پارٹی کے بغیر چھوٹی اتحادی جماعتوں کی حمایت سے بھی ممکن ہوں گے۔ایوان میں پیپلز پارٹی کی 74 نشستوں کے باوجود اس کا اتحادی کردار کمزور ہو گیا جس کے بعد حکومت کو قانون سازی کے لیے اس پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔

اسمبلی میں ایم کیو ایم کی 22، مسلم لیگ ق کی 5، استحکام پاکستان پارٹی کی 4، مسلم لیگ ضیا، بی اے پی اور نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے۔ آزاد اراکین کی تعداد 4 ہے۔مسلم لیگ ن دیگر اتحادیوں کی حمایت سے آزادانہ قانون سازی کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔
پیش رفت پیپلز پارٹی کی سیاسی حیثیت کے لیے بڑا دھچکا قرار دی جا رہی ہے۔تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق ن لیگ نے اگرچہ سادہ اکثریت لے لی ہے لیکن انہیں پیپلزپارٹی کے بطور اتحادی ضرورت رہے گی، لیگی حکومت قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے ایکٹ وغیرہ تو پاس کروا سکتی ہیں مگر اکیلے کوئی آئینی ترمیم پاس نہیں کروا سکتے کیونکہ اس کے لیے دو تہائی اکثریت ضروری ہے، دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت ن لیگ نے قومی اسمبلی کی تمام 6 نشستیں اپنے نام کر لیں، جبکہ صوبائی اسمبلی کی 7 میں سے 6 نشستیں بھی ن لیگ کے حصے میں آئیں۔ پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست پر کامیابی حاصل کر سکی۔

پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کے 229 ارکان تھے، مزید 6 نشستیں جیتنے کے بعد ن لیگ کی تعداد 235 ہوگئی ہے۔ق لیگ کے 11، استحکام پاکستان پارٹی کے 7، مسلم لیگ ضیا کے ایک جبکہ پیپلز پارٹی کی ایک نشست جیتنے کے بعد ان کی تعداد پنجاب اسمبلی میں 17 ہو گئی ہے۔

پنجاب میں ن لیگ کی شاندار کامیابی کو مریم نواز کی عوامی خدمت، ترقیاتی منصوبوں اور ریلیف پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کے مطابق مریم نواز کی خدمت کی سیاست نے شیر کو دوبارہ جیت کا نشان بنا دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پنجاب حکومت کی کارکردگی اہم ہے، لیکن اصل وجہ پی ٹی آئی کی دفاعی پوزیشن اور بائیکاٹ پالیسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے خود میدان چھوڑ دیا۔ لاہور میں جہاں بائیکاٹ نہیں کیا، وہاں بھی لیڈر شپ اور ووٹرز میدان میں نہ آ سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔