وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایسے معاملات کی تحقیقات شروع کر دی ہیں جس میں ورک ویزا رکھنے والے پاکستانی مسافروں کو ایئر پورٹس پر روانگی سے روکا گیا۔
کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ایئر پورٹس پر متعدد افراد کو، جن کے پاس صحیح ورک ویزا اور ٹکٹ موجود تھے، کو ایف آئی اےاہلکاروں نے سفر سے روک دیا۔ ان افراد کے ہزاروں روپے کے ٹکٹ ضائع ہوگئے۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل رفعت مختار نے تصدیق کی کہ ادارہ اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کر رہا ہے۔
ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق ادارہ اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کر رہا ہے اور ’اگر کسی اہلکار کے اختیارات کے غلط استعمال کی نشاندہی ہوئی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے رفعت مختار نے کہا کہ ابتدائی رپورٹس لاہور اور کراچی ایئرپورٹس سے موصول ہوئی ہیں جہاں کچھ مسافروں کو مکمل سفری دستاویزات ہونے کے باوجود ملک سے باہر روانگی کی اجازت نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایف آئی اے نے ورکرز کے لیے کوئی نیا سفری ضابطہ یا اضافی شرط متعارف نہیں کرائی اور نہ ہی کسی قسم کے نئے حلف نامے کا تقاضہ کیا گیا ہے۔‘
اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر برائے اوورسیز پاکستانی چوہدری سالک حسین نے کی۔ وزیر نے ہدایت کی کہ بیرونِ ملک جانے والے ورکرز کو غیر ضروری طور پر روکنے کی شکایتیں ناقابلِ قبول ہیں اور مستند دستاویزات رکھنے والے مسافروں کی روانگی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔
ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ادارہ ایک ڈیجیٹل امیگریشن سسٹم پر بھی کام کر رہا ہے جس کے بعد ورکرز بیرونِ ملک روانگی سے قبل اپنے کاغذات کی آن لائن تصدیق کر سکیں گے۔ ان کے مطابق اس نظام سے ایئرپورٹ پر غیر ضروری رکاوٹوں اور بدانتظامی میں کمی آنے کی توقع ہے۔
ابتدائی معلومات کے مطابق بعض افراد کو انسانی سمگلنگ کے خدشات کی بنا پر روکا گیا۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ مسافروں کے کوائف میں بے ضابطگیاں بھی سامنے آئیں، جنہیں مزید تفتیش کے لیے اینٹی ہیومن سمگلنگ سرکل کے حوالے کیا گیا۔
پاکستان اوورسیز امپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے سابق وائس چیئرمین محمد عدنان پراچہ نے بتایا کہ روکے جانے والے افراد کی تعداد کافی زیادہ ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے کئی لوگوں کو آف لوڈ کیا گیا ہے جو اپنے آبائی صوبوں کے ایئر پورٹ کی جگہ پر دیگر صوبوں کے ایئر پورٹ سے سفر کررہے تھے۔ حالانکہ ایسے مزدور لوگ جو کہ قرض لے کر اپنے اخراجات پورے کررہے ہوں وہ عموما سستے ٹکٹ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سستے ٹکٹ ان کو کسی بھی ایئر لائن کے کسی بھی ایئر پورٹ پر مل جاتے ہیں جہاں وہ اپنے چند ہزار بچانے کے لیے سفر کررہے ہوتے ہیں۔
سعودی عرب میں مقیم صحافی نور الحسن گجر کے مطابق سعودی قوانین اور نئی پالیسیوں کے تحت ورک ویزا کے ساتھ اضافی دستاویزات بھی لازمی ہیں، جن میں ‘پروٹیکٹر سٹیمپ’ شامل ہے، جس کے بغیر بعض اوقات ایئرپورٹ پر روانگی کی اجازت نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ ورک ویزے کے لیے لازمی ہے کہ ویزا لائسنس یافتہ اوورسیز ایمپلائمنٹ ایجنسی کے ذریعے یا براہِ راست کمپنی سے حاصل کیا گیا ہو، اور معاہدہ قانونی تحفظ فراہم کرے۔
ایف آئی اے کی تحقیقات کے بعد یہ واضح ہو سکے گا کہ کتنے مسافروں کو انسانی سمگلنگ یا دیگر وجوہات کی بنا پر روکا گیا اور کتنے افراد کی قانونی روانگی میں غیر ضروری رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos