کوہسار یُونِیورسِٹی کی ایک حقِیقی جھلک

تحرِیر :- شاہد حُسین عباسی

سپورٹس سائنسز کے مُطالعے سے یہ بات مشاہدہ میں آتی ہے کہ دُنیا بھر کے ہل اسٹیشنز ، صحت افزاء مُقامات اور پہاڑی عِلاقے صحت اور اِس سے مُتعلقہ جِسمانی سرگرمیوں کےلیے کِتنے موزُوں ہوتے ہیں ۔
دُنیا کے جِتنے بھی ترقّی یافتہ مُمالک ہیں اُن سب میں یہ قدرِ مُشترِک ہے کہ اُن کے قومی اور بین الاقوامی معیار کے کھلاڑیوں کے لیے پہاڑی علاقوں میں ٹریننگ کو سب سے ضرُوری سمجھا جاتا ہے ، اِسی لیے ترقّی یافتہ مُمالک نے اپنے ہل اسٹیشنز کو جدِید ترِین سہُولیات سے مُزیّن کر رکھا ہے ، جہاں اُن کے کھلاڑی سال کے اکثر اوقات پہاڑی علاقوں میں ٹریننگ پر صرف کرتے ہیں اور جِن مُمالک میں سائنسی طریقہ کار کے مُطابِق پہاڑی علاقوں کو سہُولیات سے لیس کیا گیا ہے وہاں کے اولمپک اور ورلڈ لیول جیسے بڑے مقابلوں میں کھِلاڑیوں کے میڈل ، ٹیبل پر سرِ فہرست نظر آتے ہیں ۔ اُن ترقّی یافتہ مُمالک کے کھلاڑی اپنا اور اپنے مُلک کا نام روشن کرتے ہیں ۔
اگر اِس بات کا جائزہ لِیا جائے کہ چِین ، امریکہ اور یورپی مُمالک کے کھِلاڑی دُنیا میں سب سے ممتاز اور الگ مقام کیُوں رکھتے ہیں تو اِس کا جواب یہی ہے کہ مذکُورہ مُمالک اپنے ہل سٹیشنوں میں جِس آئیڈیالوجی سے کھِلاڑیوں کو صاف ماحول فراہم کرتے ہیں ترقّی پذِیر مُمالک یا تو اُس سائنسی طریقۂ کار سے دُور اور نابلد ہیں یا اُن مُمالک کی اِنتظامیہ اپنے وسائل کا رُخ انسانوں کی فلاح و بہبود کی طرف موڑنا ہی نہیں چاہتی ۔ اگر سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہل اسٹیشن سطح سمندر سے بُلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے اپنا اِنفرادی مقام رکھتا ھے یہاں صاف و شفاف آکسِیجن ، آلودگی سے پاک ماحول ٹریننگ میتھڈز پر حیران کُن اثرات مُرتّب کرتا ہے جِس کی وجہ سے اُن ممالک کے کھِلاڑیوں کی کارکردگی حیران کُن طور پر سب سے مُنفرِد ہوتی ہے ۔
پاکِستان کو اللّٰہ پاک نے وسائل سے مالا مال کِیا ہُوا ہے ، خاص طور پر یہاں کے ہل اسٹیشنز پُوری دُنیا میں اپنا مُنفرِد مقام رکھتے ہیں مگر یہاں پر نافذ اِس نِظام نے کبھی پاکِستان کی عوام کی فلاح کو اہمیّت ہی نہ دی ۔ ہمارے ہاں ہل اسٹیشن صِرف ایک خاص عیاش طبقہ اپنی عیاشی کے لیے اِستعمال کرتا ھے ۔ پاکِستان کے تمام ہل اسٹیشنز پر صِرف عیاشی کے اڈے ہی بنائے جاتے رہے ہیں ۔ ترقی یافتہ مُمالک کو نمونہ بنانے کی کوشِش ہی نہِیں کی گئی ۔
ہسپتال بنانے کی بجائے اگر کھیلوں کے میدان بنانے اور اُن کو آباد کرنے کی پالیسی بنائی جائے تو شہروں میں بنے ہسپتال بھی ویران ہو جائیں گے رُوسو کا قول ہے کہ” جِس مُلک کے کھیلوں کے میدان آباد ہوتے ہیں اس کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں اور جِس مُلک کے کھیلوں کے میدان غیر آباد ہوتے ہیں اُس کے ہسپتال بھرے ہوتے ہیں”۔ رُوسو کا یہ قول پاکِستان میں مُکمّل طور پر صادق آتا ہے ۔
ضِلع مری کا شمار پاکِستان کے بہترِین اور مشہُور ہل اسٹیشنز میں ہوتا ہے ۔ مری شہر کی سطح سمندر سے بُلندی 7847 فُٹ ہے ۔ یُونین کونسل مری شہر کی آبادی لگ بھگ پینتِیس ہزار جبکہ (تحصِیل مری قرِیباً ساڑھے تِین سے پونے چار لاکھ ، تحصِیل کوٹلی ستیاں قریباً سوا لاکھ) مُکمّل ضِلع مری کی آبادی قریباً سوا پانچ لاکھ ہے ۔ جِن میں اکثریت نوجوان طبقے کی ہے ۔
کسی بھی مُعاشرے ، قوم اور مُلک کی کامیابی کا دارومدار اُس کے نوجوانوں کی صلاحیتوں پر ہوتا ہے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ صحت مندانہ سرگرمیوں اور اُن سے مُنسلِک سہُولیات نہ ہونے کی وجہ ہمارے نوجوان ہر طرح کے شاندار مُستقبِل سے محرُوم ہیں ۔ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ "جب بچّہ مکتب سے تعلِیم کے حصُول کے بعد گھر پہنچے تو اُس سے کِتابوں کا گٹھا لے لو اور اُس کو میدان کی طرف دھکیلو تاکہ وہ اپنی توانائی کا اِستعمال کرنا سیکھے” ھمارے ہاں والدین اور اساتذہ میں اِس شعُور کا فُقدان دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ بچّوں پر اِس چِیز کی نظر رکھیں کہ وہ اپنی اضافی توانائی کہاں اِستعمال کرتے ہیں ؟ اساتذہ اور والدین کی عدم توجہی اور راہنمائی سے محرُوم نوجوان اپنی توانائی کو منفی مقاصد کے لیے اِستعمال کرتے ہیں ۔ نوجوانوں کا وہ ٹیلنٹ جِس نے مُلک و قوم اور آنے والی نسلوں کی راہنمائی کرنی ہوتی ہے جِسمانی اور رُوحانی والدین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے ۔ مری جو سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے ہی مشہُور ہُوا ہے ، اِس کے نوجوانوں کو صحت اور اُس سے مُتعلقہ جِسمانی سرگرمیوں سے ہمیشہ محرُوم رکھا گیا ہے ۔
مری کے تعلِیمی اِداروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو جو اِدارے عام لوگوں کے بچّوں کی تعلِیم حاصِل کرنے کےلیے دسترس میں تھے عام لوگوں کو اِس رسائی سے محرُوم کردیا گیا ہے ۔ اب والدین کےلیے پریشان کُن مرحلہ میٹرک کے بعد بچّوں کو انٹرمیڈیٹ میں داخلے کا ہوتا ہے ۔ گورنمنٹ کالج مری 1969ء سے 2019ء تک عِلم کی شمع بکھیرتا رہا ہے ۔ بڑے بڑے قد آور لوگوں نے یہاں سے حصُولِ عِلم کے بعد مُلک وقوم کا نام روشن کیا ہے ۔
کوہسار یُونِیورسِٹی جو مری کی سطح پر اشد ضرُوری تھی بجائے اِس کے کہ اِس کا الگ قیام عمل میں آتا مری کے گرلز اور بوائز کالج کی جگہ ہی یُونِیورسِٹی بنادی گئی اب جب یُونِیورسِٹی میں داخلے کے لیے اُمِیدوار ہی نہ ہوں گے تو یُونِیورسِٹی میں کون سے لوگ داخلہ لیں گے ؟ جب کہ بوائز اور گرلز کالج دو ایسے پروڈکشن یونٹ تھے جِن سے طُلباء و طالِبات انٹر کرنے کے بعد داخلہ لیتے تھے ۔
کالج کی عمارت کو یُونِیورسِٹی کہلوانے سے پہلے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مری نے نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں پُورے پاکِستان میں اپنا لوہا منوایا تھا ۔ گورنمنٹ کالج مری میں ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور کھیلوں کے میدان میں راقم نے ایک کھِلاڑی ہونے کے ناطے قومی سطح تک کے کھِلاڑی تیّار کِیے اور اپنے سبجیکٹ میں 2015ء سے 2020ء تک 100 فیصد رزلٹ بھی دِیا ۔ مگر یُونِیورسِٹی اِنتظامیہ کے آنے کے بعد سب سے پہلے کالج سے اِس مضمُون کو نِصاب سے خارج اور ختم کیا ۔ اِس کے بعد بچّوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں سے محرُوم کرنے کے لیے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ بھی ختم کردیا گیا ڈاکٹر محسن اقبال رجسٹرار اور ڈاکٹر آفتاب چئیرمن اکیڈمک کونسل اور عدنان شیرین نے اپنی عدم دلچسپی ، بغض و عناد کی وجہ سے آج تک اِس ڈیپارٹمنٹ کو قائم نہیں ہونے دِیا جِس سے یُونِیورسِٹی کے طُلباء و طالِبات میں نشہ آور اشیاء کا رُحجان بڑھتا جارہا ہے اور طالب علم منفی سرگرمیوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ جِس چِیز میں بچّوں کو اپنا مُستقبِل نظر آنا تھا بچّوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی جا رہی ۔ اگر دیکھا جائے تو جب یُونِیورسِٹی کو ریٹنگ مِلتی ہے تو اُس وقت ڈیپارٹمنٹ ہیلتھ اینڈ فِزیکل ایجوکیشن اور اس سے مُتعلقہ جِسمانی سرگرمیوں کا سب سے زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بغیر صحت اور جِسمانی سرگرمیوں کے یہ یُونِیورسِٹی مُلک کے طول و ارض میں تعلِیم کی جگہ کیا بانٹ رہی ھے ؟؟؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔