نور مقدم کیس میں جسٹس باقر نقوی نے ناجائز تعلقات کیخلاف کیا لکھا

مشہور زمانہ نور مقدم قتل کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس باقر نجفی نے اپنا اضافی نوٹ جاری کیا ہے جس میں شامل ایک پیراگراف بغیر شادی کے لڑکے اور لڑکی کے ایک ساتھ رہنے یعنی لونگ ریلیشن شپ کے خلاف ہے۔ اس ایک پیراگراف میں سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی ہے اور لبرل حلقوں کی جانب سے اس کی مذمت کی جا رہی ہے۔**

تاہم اس نوٹ میں ایسے ہی کوئی بات شامل نہیں جو عام طور پر پاکستانی عوام ناپسند کرتے ہوں یا جس کی وہ تائید نہ کرتے ہوں۔

فوجداری پٹیشن برائے اجازت اپیل نمبر 467 بابت 2023ء میں، جو زاہد ذاکر جعفر بمقابلہ سرکار بذریعہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد دائر کی گئی تھی، سپریم کورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی کا ایک اضافی نوٹ جاری کیا گیا ہے۔ یہ نوٹ 20 مئی 2025 کو دستخط کیا گیا تھا اور اس میں مجرم کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کے اکثریت کے فیصلے سے مکمل اتفاق کیا گیا ہے۔

اس نوٹ میں مقدمے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ
ایف آئی آر شوکت علی مقدم کی شکایت پر درج کی گئی تھی کہ ان کی بیٹی 19 جولائی 2021 کو لاپتہ ہوئی اور اسی دن رات 10:00 بجے انہیں پولیس سٹیشن سے کال موصول ہوئی کہ ان کی بیٹی کی لاش ملزم کی رہائش گاہ سے ملی ہے۔ ملزم کو ٹرائل کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ نے تعزیر کے تحت دفعہ 302(ب) پاکستان پینل کوڈ (PPC) کے تحت سزائے موت اور دفعہ 376 PPC کے تحت بھی سزائے موت سنائی تھی۔
رات 9:00 بجے کے واقعہ کی ایف آئی آر رات 11:30 بجے درج کرانے میں تاخیر کے متعلق اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ یہ تاخیر درست ہے۔ گواہوں کے بیانات سے تصدیق ہوتی ہے کہ وہ رات 9:30 سے 10:00 بجے کے درمیان جائے وقوعہ پر پہنچے۔ عدالت نے یہ رائے دی کہ اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک خاتون کا سر قلم کیے جانے جیسے سنگین واقعہ میں پولیس کا ہوشیار رہنا اور مقتول کے لواحقین کا انتظار کرنا درست تھا۔ مدعی (متاثرہ کے والد) کو اس شدید صدمے سے سنبھلنے اور پھر شکایت درج کرانے میں وقت درکار تھا، اس پس منظر میں ملزم کو جھوٹا پھنسانے کا کوئی عنصر نہیں ہے۔
پوسٹ مارٹم میں تاخیر پر اعتراض بھی مسترد کردیا گیا۔ پوسٹ مارٹم 20 جولائی 2021 کو صبح 9:30 بجے کیا گیا، جس میں موت اور پوسٹ مارٹم کے درمیان تخمینہ وقت 8-9 گھنٹے تھا۔ تقریباً 12 گھنٹے کی یہ تاخیر، جسٹس نجفی کے مطابق، اس لیے خطرناک نہیں ہے کہ آٹوپسی ہمیشہ انکویسٹ رپورٹ اور زخموں کے بیان کی تیاری کے بعد کی جاتی ہے۔ ایک ہائی پروفائل کیس ہونے کے ناطے، ڈاکٹروں نے دن کی روشنی اور معمول کے دفتری اوقات میں پوسٹ مارٹم کو ترجیح دی۔
جسٹس نجفی کے مطابق عدالت نے سی سی ٹی وی فوٹیجز (DVR) کو دوبارہ دیکھا، جس میں نظر آیا کہ مقتولہ نور مقدم پہلی منزل کی کھڑکی/اوپننگ سے چھلانگ لگا کر نیچے ریلنگ پر اتری اور لنگڑاتی ہوئی فرار ہونے کے لیے مرکزی دروازے کی طرف آئی۔ چوکیدار محمد افتخار نے دروازہ بند کر دیا اور مقتولہ کی حالت کو نظرانداز کرتے ہوئے تہہ خانے کی طرف بڑھ گیا۔ اسی دوران ملزم نے چھلانگ لگائی، مقتولہ کا موبائل چھین لیا اور اسے مرکزی دروازے کے ساتھ گارڈ روم کے طور پر استعمال ہونے والے بیرونی کیبن میں بند کر دیا۔ بعد ازاں وہ کیبن کھول کر مقتولہ پر تشدد کرتا ہے، اور کوئی بھی، بشمول محمد جان، ملزم کو نہیں روکتا۔ مقتولہ کو گھسیٹ کر واپس گھر کے اندر لے جایا گیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ محض ملزم کو مقتولہ کے ساتھ دیکھنے کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ حالات پر مبنی شواہد ہیں جو ملزم کو جرم سے جوڑتے ہیں۔ چھینا ہوا موبائل فون بھی ملزم کے قبضے سے برآمد ہوا۔
سپریم کورٹ کے اضافے نوٹ میں لکھا گیا کہ دفعہ 342 Cr.P.C کے تحت اپنے دفاع میں، ملزم نے تسلیم کیا کہ وہ اور مقتولہ اچھے دوست تھے اور اس کے اصرار پر منشیات کی پارٹی رکھی گئی تھی جہاں مقتولہ نے زیادہ مقدار میں منشیات استعمال کی اور ہوش و حواس کھو بیٹھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ جب اسے ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک کمرے میں بندھا ہوا پایا۔ تاہم عدالت نے اس ورژن کو مسترد کر دیا کیونکہ طبی شواہد میں نہ تو مقتولہ اور نہ ہی ملزم کے جسم میں کوئی نشہ آور شے پائی گئی اور نہ ہی سی سی ٹی وی فوٹیج میں کسی دوسرے مہمان کو دیکھا گیا۔
دفعہ 465 Cr.P.C کے تحت پاگل پن (Insanity) کا جو دفاع لیا گیا، عدالت نے مشاہدہ کیا کہ یہ پلی ریمانڈ کے وقت نہیں لی گئی تھی، اور نہ ہی دفاع میں یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش کیا گیا کہ ملزم کسی نفسیاتی مسئلے میں مبتلا تھا۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں تھا کہ ملزم کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کرتا تھا یا کوئی ایسی دوا استعمال کرتا تھا جس کی غیر موجودگی میں وہ مشتعل ہو کر ہوش کھو بیٹھتا۔
فیصلے کے مطابق استغاثہ نے جرم کے ارتکاب کے لیے کوئی محرک (مؤٹو) پیش نہیں کیا، جس پر اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کی یہ پابند ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ محرک کو بھی ثابت کرے۔
جسٹس نجفی نے اپنے نوٹ میں کہا کہ موجودہ کیس میں تخفیف (mitigating circumstances) کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وقوعہ کے وقت میں معمولی تضادات، پوسٹ مارٹم میں تاخیر، چاقو پر انگلیوں کے نشانات کی عدم موجودگی لیکن ملزم کے ڈی این اے کا ملنا، اور ایف آئی آر کے اندراج میں معمولی تاخیر، استغاثہ کے شواہد کی ساکھ کو متاثر نہیں کرتے، جنہوں نے ملزم کا جرم شک و شبہ سے بالاتر ثابت کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "حالات پر مبنی شواہد کے اس کیس میں، رسی کا ایک سرا نور مقدم کی لاش سے بندھا ہوا پایا گیا ہے اور دوسرا سرا ملزم کی گردن سے بندھا ہوا ہے”۔

یہ تمام پیراگراف لکھنے کے بعد جسٹس باقر نجفی نے ایک آخری پیراگراف معاشرتی پہلو سے لکھا جس میں کہا گیا کہ موجودہ کیس "لِونگ ریلیشن شپ” نامی اس برائی کا براہ راست نتیجہ ہے جو معاشرے کے اعلیٰ طبقے میں پھیل رہی ہے، جو ملک کے قانون اور اسلامی شریعت کی خلاف ورزی ہے اور اللہ کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔
جسٹس نجفی کے الفاظ کا اردو ترجمہ ہے "میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ موجودہ کیس بالائی معاشرے میں پھیلتی ہوئی ایک برائی کا براہ راست نتیجہ ہے جسے ہم "لِونگ ریلیشن شپ” کے نام سے جانتے ہیں جس میں نہ صرف ملک کے قانون بلکہ اسلام شریعت کے تحت ذاتی قانون کو بھی چیلنج کرنے کے لیے معاشرتی مجبوریوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے خلاف ایک کھلی بغاوت ہے۔ نوجوان نسل کو اس کے خوفناک نتائج کو ضرور نوٹ کرنا چاہیے جیسا کہ موجودہ کیس میں ہوا ہے جو سماجی مصلحین کے لیے بھی ان کے حلقوں میں بحث کا ایک موضوع ہے۔”

 

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی فرزانہ باری نے سپریم کورٹ کے جج کے اضافی نوٹ میں لیونگ ریلیشن شپ سے متعلق ریمارکس پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی جج کا کام اخلاقی نوٹ لکھنا یا سبق دینا نہیں بلکہ قانون پر بات کرنا ہے۔

فرزانہ باری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جج نے مفروضوں کی بنیاد پر رائے قائم کی اور لڑکے اور لڑکی کے تعلقات کسی بھی مقدمے میں لیونگ ریلیشن شپ ثابت نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کی سوچ اگر معاشرتی تصورات کے مطابق ہو تو وہ عوام کی اصلاح کے لیے اپنی رائے مسلط نہیں کر سکتے۔

خواتین کے حقوق کی کارکن شمائلہ خان نے بھی کہا کہ عدالت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ متاثرہ شخص کے بارے میں فیصلے یا اضافی نوٹ میں اس طرح کے ریمارکس دیے جائیں۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس واقعے کا حوالہ دیا کہ انہوں نے ایک مقدمے میں خواتین کی طرف سے شدید ردعمل کے بعد اپنے الفاظ واپس لے لیے تھے۔

فوجداری مقدمات کے وکیل بشارت اللہ خان نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ جج اضافی نوٹ میں لیونگ ریلیشن شپ کا ذکر کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مجرم ظاہر جعفر کے بیان کو درست مان رہے ہیں۔ اس صورت میں، نور مقدم کے قتل کا مقدمہ ریپ کے بجائے باہمی رضامندی کے زمرے میں آتا ہے، جس سے مجرم کو عمر قید کی سزا غیر قانونی ہو سکتی ہے اور مقدمہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 496 اے کے تحت قابل ضمانت جرم بنتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔