پنجاب میں سڑکوں پرکریک ڈائون اورایجوکیشنل ڈرائیونگ لائسنس کی تجویز

ٹریفک پولیس پنجاب نے کہا ہے کہ قوانین کی خلاف ورزی پر صوبہ بھر میں زیرو ٹالرنس پالیسی نافذ العمل ہوگئی۔پنجاب میں 72 گھنٹوں کے دوران ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر1 لاکھ 26 ہزار چالان کئے گئے ہیں۔ صوبہ بھر 13 کروڑ 48 لاکھ کے جرمانے ہوئے ۔

3روزہ کریک ڈاؤن کے دوران 25 ہزار 424 موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں تھانوں میں بند کردی گئیں ۔سنگین خلاف ورزیوں پر 4 ہزار 585 افراد حوالات میں بندہوئے ۔ڈی آئی جی ٹریفک نے کہاہے کہ کارروائیوں کا مقصدزندگیوں کا تحفظ اور منظم ٹریفک کا حصول ہے۔

 

مہم کے دوران 48 گھنٹوں کے دوران صوبے میں 7 کروڑ 12 لاکھ روپے سے زائد کے چالان جاری ہوئے۔ مختلف خلاف ورزیوں پر 76 ہزار سے زائد شہریوں کو چالان کیا گیا ، سنگین خلاف ورزیوں پر 1402 ایف آئی آرز بھی درج کی گئیں۔ترجمان کے مطابق کارروائیوں کے دوران بغیر لائسنس ڈرائیونگ پر 11 ہزار 700 افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے بھاری جرمانے عائد کیے گئے، ون وے کی خلاف ورزی پر 4 ہزار سے زائد شہریوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی۔اسی طرح بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے والے 12 ہزار سے زائد موٹر سائیکل سواروں کو چالان ٹکٹ جاری کیے گئے۔

 

پبلک ٹرانسپورٹ میں اوور لوڈنگ کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا گیا، جس کے تحت 1397 گاڑیوں کو جرمانے کیے گئے اور متعدد کو بند کر دیا گیا۔کم عمر ڈرائیونگ کے معاملے پر پولیس نے 3 ہزار سے زائد کم عمر ڈرائیورز کے خلاف کارروائیاں کیں۔

 

ترجمان نے بتایا کہ غیر نمونہ نمبر پلیٹس استعمال کرنے پر 3875 شہریوں کے خلاف، غلط پارکنگ پر 1262 ڈرائیورز کے خلاف کارروائی کی گئی۔اس کے علاوہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف بھی بڑا آپریشن کیا گیا، جس میں 7200 سے زائد گاڑیوں کے چالان کیے گئے اور کئی گاڑیاں موقع پر ہی بند کر دی گئیں۔

 

ٹریفک میں رکاوٹ بننے والے نشئی افراد اور بھکاریوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی، جس دوران 36 مقدمات درج کیے گئے۔

 

ٹریفک پولیس کے مطابق اس خصوصی مہم کا مقصد شہریوں میں قانون کی پاسداری کو فروغ دینا اور حادثات کی شرح میں کمی لانا ہے، اسی لیے خلاف ورزیوں پر سخت کارروائی جاری رہے گی۔

 

پنجاب پولیس کے مطابق 24گھنٹوں میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر 3195 افراد گرفتار ہوئے۔ 3215 مقدمات درج ہوئے اور 12 ہزار سے زائد گاڑیاں تھانوں میں بند کی گئیں۔ 50 ہزار سے زائد چالان جاری ہوئے اور کروڑوں روپے کے جرمانے وصول کیے گئے۔

 

ٹریفک پولیس لاہور نےشہر بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر3 روزہ کریک ڈاؤن کے دوران 1800 مقدمات درج کیے اور متعدد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔

سی ٹی او لاہور کے مطابق، ون وے کی خلاف ورزی پر 1370 ایف آئی آرز درج کی گئیں ، ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے والے 174 ڈرائیورز کے خلاف مقدمات بنائے گئے۔ علاوہ ازیں، کم عمری کی ڈرائیونگ کے لیے بچوں کو گاڑی یا موٹر بائیک دینے والے 30 معاونین پر بھی ایف آئی آرز درج کی گئیں۔

 

ٹریفک پولیس نے لاہورشہر میں موٹرسائیکل سواروں کے خلاف بھی بھرپور کریک ڈاؤن کیا ہے،ٹریفک وارڈنز نے سینکڑوں موٹرسائیکل سواروں کو تھانوں میں بند کرا دیا۔
موٹرسائیکل سواروں پر، ون وے ،غیر نمونہ نمبر پلیٹ ،سگنل کی خلاف ورزی کے الزامات ہیں، ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے خلاف مقدمات درج کروائے جارہے ہیں۔

 

سی ٹی او لاہور نے بتایا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر کسی کو بھی رعایت نہیں دی جائے گی اور آئندہ دنوں میں کارروائیاں مزید تیز کی جائیں گی۔ شہریوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ٹریفک قوانین پر سنجیدگی سے عمل کریں۔

 

ٹریفک پولیس نے 72 گھنٹوں کے دوران 55 سے زائد سرکاری محکموں کی تقریباً 600 گاڑیوں کے ای چالان جمع کرائے اور لاہورکے متعلقہ تھانوں میں گاڑیاں روکی گئیں۔
چیف ٹریفک آفیسر لاہور نے پولیس کی سرکاری گاڑیوںکے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیاہے۔سی ٹی او کے مطابق پولیس اہلکار وافسران عام شہریوں والے قوانین کے مطابق سفر کریں گے، خلاف ورزی پر اہلکاروں وافسران کو چالان ،مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔ سی ٹی او اطہر وحید کا کہناہے کہ پولیس کی سرکاری گاڑیوں ،موٹرسائیکلوں کیخلاف کارروائی کریں، کالے شیشے ختم نہ کرنے پربھی افسران و اہلکاروں کیخلاف مقدمات درج کرائے جائیں گے۔غیر نمونہ نمبر پلیٹس گاڑی چلانے والے افسران واہلکاروں پر بھی مقدمات ہوں گے۔سی ٹی او کے مطابق شہر میں سینکڑوں پولیس گاڑیاں کالے شیشوں ،غیر نمونہ نمبر پلیٹس کیساتھ گھومتی ہیں، عوام کے ساتھ سرکاری افسران وپولیس اہلکاروں کو ٹریفک قوانین پر عمل کرنا ہو گا۔

 

راولپنڈی کے چیف ٹریفک افسر فرحان اسلم کے احکامات پر ایک دن میں مجموعی طور پر 21 سرکاری وہیکلز کو ون وے خلاف ورزی، کالے شیشوں کے استعمال اور بغیر ہیلمٹ اور نمبر پلیٹ کی پابندی نہ کرنے پر چالان ٹکٹ جاری کیے گیے۔ کریک ڈاؤن کے دوران ڈی ایس پی ٹریفک کینٹ راولپنڈی کی سرکاری گاڑی بھی کالے شیشوں پر پکڑ میں آگئی، ڈی ایس پی کی سرکاری گاڑی کا 500 روپےچالان ٹکٹ جاری کیا گیا اور کالے پیپر اتارے گئے۔چیف ٹریفک افسرنے ڈی ایس پی سے وضاحت طلب کرکے ان کے سرکاری ڈرائیور کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

 

ملتان شہر میں کریک ڈاؤن کے دوران سی ٹی او محمد کاشف اسلم اپنی ٹیموں کے ہمراہ ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے انفورسمنٹ کی مانیٹرنگ کررہے ہیں۔ڈسٹرکٹ ٹریفک آفیسر منڈی بہاؤالدین راشد بشیر کی زیرنگرانی کنگ چوک میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوئی۔ٹریفک افسران نے بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل سوار،کم عمر ڈرائیورز کے خلاف سخت کاروائی کی اور بڑی تعداد میں موٹر سائیکل کو متعلقہ تھانہ میں بند کرایا۔سٹی ٹریفک پولیس فیصل آباد کی جانب سے ڈرون کیمروں کے ذریعےٹریفک وائلیٹرز کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔

 

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے پولیس گاڑیوں سے سیاہ شیشے فوری ہٹانے کا حکم دیاہے۔ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق آئی جی نے کہا ہے کہ پولیس افسران و اہلکاروں کی سرکاری و نجی گاڑیاں، موٹر سائیکل رجسٹریشن پلیٹوں کے بغیر ہرگز نہ ہوں، ٹریفک قوانین دیگر شہریوں کی طرح پولیس افسران و اہلکاروں پر بھی مساوی طور پر لاگو ہوں گے،سیاہ شیشوں، بغیر نمبر پلیٹ گاڑی اور موٹر سائیکل کی کسی بھی خلاف ورزی پر متعلقہ ایس ایچ اوز، انچارج، ضلعی افسران، یونٹس و فارمیشنز سربراہان ذمہ دار ہوں گے۔سیاہ شیشوں، بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں، موٹر سائیکل کی قانون شکنی پر افسران، اہلکار اور مجاز سربراہان کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

 

وزیر اعلی ٰ پنجاب نے ٹریفک پولیس کو 30 دن کے اندر ٹریفک کا نظام بہتر کرنے کا حکم دیا ہے۔ مریم نوازشریف نے کہا ہے کہ حکومت پنجاب نے عوام کی جان کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت بار بار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر گاڑی ضبط اور نیلام کی جا سکتی ہے۔ سگنل توڑنے اور اوور سپیڈنگ پر فوری کارروائی ہوگی۔ کم عمر ڈرائیور کو گاڑی دینے پر مالک کو چھ ماہ قید ہوگی۔ اوور لوڈنگ اور چھت پر سواری بھی ممنوع ہے۔ لہٰذا اپنی گاڑی اور اپنی حفاظت کیلیے قوانین کی مکمل پاسداری ضروری ہے۔

 

شہری اس معاملے پر بات کرتے نظر آرہے ہیں۔ سوشل میڈیاصارفین کا کہناہے کہ آپ نے یورپ، امریکہ، عرب ریاستوں کی طرح سخت قوانین نافذ کردیئے ۔سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے روڈ انفراسٹرکچر اور معاشی وسائل بھی یورپ امریکہ عرب ریاستوں کی طرح بہتر بنادیئے ہیں۔

ایسے قوانین متعارف کرا رہے ہیں جو ان کی آمدن کا ذریعہ بن رہے ہیں۔20 ہزار تک جرمانے لاگو کر دیے ہیں۔

عوام نے اس حوالے سے اہم نکا ت بھی اٹھائے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ایک طرف سخت گیر ہو کر لائسنس کی پابندی عائد کر دی جاتی ہے تو دوسری جانب موٹر سائیکل یا گاڑی کا لائسنس جو کہ انتہائی آسان تھا بنوانا اب حد درجہ مشکل کر دیا گیا ہے فیس آسمان کو چھو رہی ہے۔اب اس قدر مشکل سے کوئی لائسنس بنواتا ہے توقلیل مدت کے بعد وہ ایکسپائر ہو جاتا ہے اب اس پر وہی سارے قوانین لاگو ہیں جو کہ لائسنس نہ ہونے والے پر۔لائسنس کا ایکسپائر ہوجانےکا مطلب کیا ہے۔کیا ایک سال بعد گاڑی چلانا بھول جاتے ہیں لوگ۔کیا ایک مدت تک ٹریفک قوانین کی پاسداری کرنے کے بعد سب لوگ قوانین بھول جاتے ہیں کہ کس سگنل کا کیا مطلب ہے کہاں رکنا ہے کہاں چلنا ہے۔ لائسنس پہلی بار کی فیس بھی اب دو گنی چوگنی ہے۔

سوشل میڈیاپر صارفین ٹریفک پولیس کے پیج پر اپ لوڈ معلومات کے نیچے کمنٹس میں اپنے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔عوامی حلقوں کا کہناہے کہ حکومت صرف کریک ڈاؤن سے آگے بڑھے۔ ہمیں جدید ٹریفک انجینئرنگ، شہری منصوبہ بندی، عوامی نقل و حمل کے جدید نظام، اور ٹریفک پولیس کی اصلاح پر توجہ دینا ہوگی۔ محض ہیلمٹ نہ پہننے والے کو پکڑنا آسان ہے، مگر شہر میں ٹریفک بہاؤ کو درست کرنا مشکل۔ یہی آسان راستہ ہمیشہ ہمارے پالیسی سازوں کا پسندیدہ رہا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی نئی ٹریفک پالیسی میں انسان کو مرکز بنائیں۔ صرف سزائیں دینے والا نظام ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔ جو نظام تعلیم، تربیت اور سہولیات فراہم کرے، وہی پائیدار ثابت ہوتا ہے۔

موٹرسائیکل سوار طلبا کے حوالے سے شہریوں کی طرف سے ایجوکیشنل لائسنس پالیسی کی تجویزبھی آئی ہے۔ اس کےتحت کریمنل ریکارڈ بناکر نوجوانوں کا مستقبل بچایا جائے، خصوصی ایجوکیشنل ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا جائے، غیر تربیت یافتہ طلبا کے لیے مفت ڈرائیونگ ٹریننگ کا انتظام ہو ۔وزیراعلیٰ پنجاب سے خصوصی اپیل ہے کہ طلباکا مستقبل بچائیں ، چالان نہیں تربیت دیں۔

سوشل میڈیاپوسٹ

اس حوالے سے ایک صارف نے پنجاب پولیس کے سوشل میڈیا پیج پر کمنٹ کیا ہے کہ لائسنس نہیں تو چالان کے بجائےموقع پر لائسنس بنا کر دیں۔ہیلمٹ نہیں تو چالان کے بجائے ہیلمٹ دیں۔

 

ایک اور صارف نے کہا ہے کہ چالان کرنے سے پہلے اگر پولیس شہری کو ہیلمٹ پکڑا دے تو آدھی مشکلات ویسے ہی ختم ہوجائیں۔2000 روپے جرمانہ لے کر خزانے میں ڈالنے سے بہتر ہے کہ وہی رقم لگا کر موقع پر ہیلمٹ دے دیا جائے۔اس سے نہ جھگڑا ہوگا، نہ وقت ضائع اور سب سے بڑھ کر جان بھی محفوظ رہے گی۔

 

سوشل میڈیا گروپس میں بھی اس پر بات ہورہی ہے۔بتایاگیاہے کہ نئے ٹریفک رولز کے بعد پنجاب کے تھانے اور عدالتیں طالب علموں اور کم عمر نوجوانوں سے بھری پڑی ہیں، متعدد گھروں سے طلباء موٹرسائیکل پر بہنوں، بھائیوں یا دوستوں کے ساتھ موٹرسائیکلوں پر کالج اور سکول جاتے ہیں جن پر مقدمات بن رہے ہیں،مقدمات سے زیادہ مسئلہ اب ان کے کریکٹر سرٹیفکیٹ کا ہے، پنجاب میں ٹرانسپورٹ کا ایسا کوئی مربوط نظام نہیں کہ یہ طلباء بسوں کے ذریعے کالج اور سکول پہنچ سکیں،والدین کے لیے نئی مصیبت بن گئی۔
ٹریفک خلاف ورزیوں پر کریک ڈائون کے دوران شہریوں نے ہیلمٹ مہنگے ہونے کا بھی شکوہ کیا ہے۔کہا جارہاہے کہ صورت حال کا فائدہ اٹھاکر قیمتیں بڑھادی گئی ہیں۔اس پربھی حکومت کو کارروائی کرنی چاہیے۔

 

ٹریفک خلاف ورزیوں پر کریک ڈائون کے دوران شہریوں نے ہیلمٹ مہنگے ہونے کا بھی شکوہ کیا ہے۔کہا جارہاہے کہ صورت حال کا فائدہ اٹھاکر قیمتیں بڑھادی گئی ہیں۔اس پربھی حکومت کو کارروائی کرنی چاہیے۔

 

وٹس ایپ گروپس میں بھی معاملہ زیربحث ہے۔ کچھ لوگوں کا نکتہ نظر کریک ڈاون کی حمایت میں ہے۔ایسے لوگوں کا کہناہے کہ ٹریفک کے سلسلے میں جو ہو رہا ہے درست ہو رہا ہے۔ ہاں یہ لازم ہے کے کوئی بے گناہ زد میں نہ آئے اور اسے کریمنل ریکارڈ نہ بنایا جائے۔

 

میڈیاکے وٹس ایپ گروپس میں اس وسیع وعریض مہم پر مباحثے جاری ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی ایسے پلیٹ فارمزپر اظہارخیال کرتے نظر آئے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ایف آئی آر دینا ،مجرم بنانا مسئلہ کا حل نہیں آپ تربیت کریں ،نصاب میں مضمون شامل ہوں، ٹریفک قوانین سمیت ملک کے دیگر قوانین پر آپ سکولوں کے بچوں کو پڑھانا شروع کریں گے تو آنے والی نسل تربیت یافتہ ہوگی۔ ڈنڈے کے زور پر کب تک یہ سب ہوگا ، کالج یونیورسٹی کے بچوں کو مجرم بنا دیں گے جب انہیں ہتھکڑی لگا کر عدالت میں لائیں گے۔ وجہ یہ کہ اس نے ہیلمنٹ نہیں پہنا یا پھر اشارہ توڑ دیا۔

 

روڈسیفٹی کریک ڈائون کے حوالے سے بہت سی وڈیوزبھی زیرگردش ہیں۔ان کے مطابق یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ہفتہ کی صبح سکول جانے والے بچوں، مزدور، سودا سلف لینے والے سمیت دیگر شہریوں کی بڑی تعداد کو ملتان پولیس کے مختلف تھانوں میں بند کردیا گیا، رات بھر تھانے رہے اتوار صبح 9 بجے تھانوں سے عدالت لایا گیا، لوگ دن بھرکے بھوکے پیاسے رات گئے تک عدالتوں کے باہر موجود ہیں، ایک ڈیوٹی جج ہے اور حراستی شہری سینکڑوں میں۔ فاضل جج کے پاس دستخط کرنے کرنے کا وقت نہیں کیونکہ فائلیں زیادہ ہیں ۔ بتایاگیاہےکہ ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے ہر تھانےکے 50 سے زائد حراستی لائے گئے۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیاصارف کا کہناتھاکہ جن کی ضمانت ہو جائے گی ، ٹرائل مکمل ہونے اور قصور وار ثابت ہونے پر 6 ماہ کی سزا بھی بھگتیں گے۔

 

قوانین پر عمل درآمدمیں سختی کے حامیوں کا یہ بھی کہناہے کہ ہم پاکستانی سعودی قانون کے مطابق تپتے صحرا کی گرمی میںہیلمٹ، سیفٹی شوز اور گھٹنوں پر لگے سیفٹی ٹول پہن کر 80 کی سپیڈ والی روڈ پر چلتے ہیںلیکن جیسے ہم پاکستان کے ایئرپورٹ پر اترتے ہیں، ہم میں ایک روح آ جاتی ہے جدید قسم کی۔ پھر ہم نہ قانون نہ قاعدےاور نہ کسی ٹریفک پولیس کو مانتے ہیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔