فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسمارٹ فون بچوں کیلیے ڈیجیٹل زہر بن گیا

میگزین رپورٹ :
اسمارٹ فون بچوں کیلئے ڈیجیٹل زہر بن گیا۔ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے سے سنگین امراض کا شکار ہونے لگے۔ سڈنی میں اسمارٹ فونز کے ذریعے زیادتی کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد بچوں کیلئے آن لائن خطرات میں بھی کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

سینٹر فار سوشل جسٹس کی تحقیق کے مطابق آٹھ لاکھ سے زیادہ پانچ برس اور اس سے کم عمر کے بچے سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔ تین سے پانچ سال کے 37 فیصد بچوں کے والدین نے تصدیق کی ہے کہ ان کا بچہ کم از کم ایک سوشل میڈیا ایپ یا سائٹ استعمال کرتا ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں رواں برس پانچ سال سے کم عمر کے صارفین میں 2 لاکھ 20 ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 19 فیصد بچے آزادانہ طور پر سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور 13 سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچوں کے سوشل میڈیا پروفائلز ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے نیشنل سینٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلوائیٹڈ چلڈرن کے تازہ اعدادوشمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسمارٹ فونز کے ذریعے بچوں کا استحصال عالمی بحران کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ ہر برس 300 ملین سے زائد بچے ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادتی اور بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف امریکہ میں چار برس کے دوران تقریباً 30 ملین سائبر ٹِپ لائن رپورٹس موصول ہوئیں۔

ادھر بچوں کو آن لائن خطرات سے محفوظ رکھنے کی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ جس کے تحت آسٹریلیا اور سنگاپور سمیت کئی ممالک نے 16 سال سے کم عمر بچوں کیلئے سوشل میڈیا کے استعمال پر سخت پابندی نافذ کرنا شروع کردی ہے۔

سڈنی مارننگ، ٹیلی گراف اور رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلوی پولیس نے پیر کو ایک بین الاقوامی گینگ کے چار افراد کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا، جو ایک ویب سائٹ کے ذریعے بچوں کی نازیبا ویڈیوز شیئرکر رہے تھے۔ ان ویڈیوز میں شیطانیت سے جڑے نشانات اور رسومات بھی شامل تھیں۔

نیو ساؤتھ ویلز پولیس کی سیکس کرائمز اسکواڈ کی سربراہ جین ڈوہرٹی کے مطابق 27 نومبرکو واٹرلو، الٹیمو اور مالابار میں چھ مقامات پر تلاشی کے دوران متعدد الیکٹرانک آلات قبضے میں لیے گئے۔ جن میں 12 سال تک کے بچوں کی ہزاروں ویڈیوز ملی ہیں۔ پولیس نے واٹرلو سے 26 سالہ شخص اور مالابار سے تین دیگر افراد گرفتار کیا۔ جن کے نام 26 سالہ لینڈن جرمینوٹاملز، 46 سالہ بینجمن ریمنڈ ڈرائیڈیل، 42 سالہ مارک اینڈریو سینڈیکی اور39 سالہ اسٹورٹ ووڈز ریچز ہیں۔ ملزمان پر 20 سے زائد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ جن میں بچوں کی نازیبا ویڈیوز رکھنے، تقسیم کرنے کے علاوہ حیوانوں کے ساتھ فعل کا مواد رکھنے اور منشیات رکھنے کے اضافی الزامات بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب آسٹریلوی حکومت نے 10 دسمبر سے نافذ ہونے والے ایک غیرمعمولی اقدام کے تحت 16 برس سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا کے استعمال سے روکنے کیلئے فیس بک، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ، ٹک ٹاک، ایکس اور یوٹیوب پر پابندی لگا دی ہے۔ جس کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں پر تقریباً 28 ملین یورو کا بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ ادھر سنگاپور کی وزارت تعلیم نے اعلان کیا کہ 2026ء سے سیکنڈری اسکول کے طلبہ کو اسکول کے اوقات کے دوران اسمارٹ فون یا اسمارٹ واچ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ پابندی پرائمری اسکولوں میں پہلے ہی نافذ ہے۔

اس کے علاوہ فرانس نے بھی 15 سال سے کم عمر اسمارٹ فونز صارفین کیلئے سختیاں بڑھا دی ہیں۔ اسپین نے جون 2024ء میں سولہ سال یا اس سے کم عمر کے بچوں پر اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ناروے نے اس حد کو 13 سے 15 سال کردیا ہے۔ جبکہ اٹلی میں 14 سال سے کم عمر کے بچوں پر سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی کیلئے والدین کی رضامندی درکار ہے۔

جنوبی کوریا کلاس رومز میں موبائل فون پر پابندی لگا رہا ہے اور ڈنمارک بھی 15 سال سے کم عمر بچوں کیلئے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دے چکا ہے۔ ان ممالک کے علاوہ بلجیم، ڈنمارک، ایسٹونیا، فن لینڈ، لیٹویا، مالٹا، پرتگال اور سویڈن بھی تیزی سے قانون سازی کر رہا ہے۔ رائٹرز کی حالیہ تحقیق کے مطابق 8 سے 18 سال کی عمر کے بچے اوسطاً روزانہ 7 گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت اسکرین پر گزارتے ہیں۔ جو ان کی نیند کے معیار اور دورانیے کو متاثر کرتا ہے اور موٹاپے، اضطراب (anxiety) اور ڈپریشن جیسی ذہنی صحت کی خرابیوں کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔

امریکی اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کے مطابق 10 سے 13 سال کی عمر دماغی نشوونما کا ایک نازک مرحلہ ہے۔ اس دوران فون کا مسلسل استعمال بچوں میں جذباتی عدم استحکام، خود اعتمادی میں کمی اور سماجی تعامل کی صلاحیتوں کو شدید متاثر کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔