پروفیسر مسعود جاوید ایک نابغہ روزگار شخصیت

ڈاکٹر ظفر اقبال

پروفیسر مسعود جاوید صاحب اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ وہ اپنے بچوں کے پاس امریکہ میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ خبر پھیلتے ہی ایسے کئی افراد نے ہم سے تعزیت کی جنہوں نے ہمیں ان کے زیرِ سایہ کام کرتے دیکھا تھا۔ سب ایک ہی سوال پوچھتے تھے:
ڈاکٹر مسعود جاوید صاحب کیسے انسان تھے؟

اگر ان کے اوصافِ حمیدہ بیان کیے جائیں تو بعض لوگوں کو شاید مبالغہ محسوس ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان جیسی شخصیات نہایت کمیاب اور افسانوی کردار کی حامل ہوتی ہیں۔

جب عباسی شہید ہسپتال کے پروفیسرز نے انہیں یاد کیا تو ایک یادگار تصویر طلب کی گئی، جو ہمیں میسر آئی اور ارسال کر دی گئی۔ اس تصویر میں وہ دو عظیم شخصیات کے درمیان کھڑے ہیں جنہوں نے انہیں عباسی شہید ہسپتال میں نیوروسرجری کا شعبہ قائم کرنے پر آمادہ کیا۔ ایک میئر عبد الستار افغانی صاحب اور دوسرے نعمت اللہ خان صاحب۔

یہ شعبۂ نیوروسرجری کے دوبارہ افتتاح کا موقع تھا اور اس میں ان کی جانب سے غیر معمولی تعاون رہا۔ دراصل انہوں نے یہ مشکل کام دو مرتبہ انجام دیا—وسائل اور ٹیم کی شدید کمی کے باوجود جو ممکن ہوا، وہ کر دکھایا۔ اس دور میں عباسی شہید ہسپتال نہایت نامساعد حالات کا شکار تھا اور نعمت اللہ خان صاحب ہی کی درخواست پر وہ اس کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بننے پر آمادہ ہوئے۔

 

عباسی شہید ہسپتال میں نیورو سرجری ڈیپارٹمنٹ کے از سرنو افتتاح کے موقع پر نعمت الله خان، شفیق الرحمٰن پراچہ اور پروفیسر مسعود جاوید کے ہمراہ – واضح ہو کہ عباسی ہسپتال کا یہ اہم شعبہ نعمت الله خان کے سٹی ناظم بننے سے پہلے کئی سال تک بند رہا تھا –

وہ اپنے کام میں نہ صرف بے حد مخلص بلکہ شفافیت کی عملی تصویر تھے۔ امانت، دیانت اور ہر کام کو اس کے حسن کے ساتھ انجام دینا ان کا مستقل وطیرہ تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی عمر میں بھی وہ جوانوں سے بڑھ کر متحرک تھے۔ ایم ایس آفس میں فائلوں کا انبار روزانہ ان کی میز سے صاف ہو جاتا۔ کم ہی ایسا ہوتا کہ آج کی فائل کل تک باقی رہ جائے، سوائے کسی وضاحت طلب یا طویل مدتی معاملے کے۔

انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آپریشن اور او پی ڈی میں عملی شرکت ان کا معمول تھا—اور وہ تھکن سے گویا ناآشنا تھے۔

وہ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کے پہلے فیلو تھے جنہوں نے نیوروسرجری میں ایف سی پی ایس کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ وہ CPSP کے کونسلر سمیت سوسائٹی آف سرجنز کے کئی اہم عہدوں پر بھی فائز رہے۔

اکیڈمک سرگرمیاں اور تربیت ان کی شناخت تھیں۔ وہ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ اقدار کی پاسداری کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ سرکاری شعبے میں رہتے ہوئے مریضوں کو نجی اسپتال جیسی توجہ، معیاری مشاورت اور بھرپور آپریٹو کیئر فراہم کرنا ان کی خاص پہچان تھی۔ ہر مریض کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاتا جو اپنے کسی عزیز کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

وہ سیاسی اور انتظامی مداخلت کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے تھے۔ ہر حال میں سچ کا علم بلند رکھتے۔ اس راہ میں انہوں نے کبھی اپنی جان کی پروا بھی نہیں کی۔ جب شہر میں دھونس، دھاندلی اور جان و مال و آبرو کے دشمن ایک “نظام” کے طور پر مسلط کیے گئے تو عباسی شہید ہسپتال میں ان کے لیے کام کرنا ناممکن ہو گیا۔

چنانچہ انہوں نے پروفیسر شپ سے چمٹے رہنے کے بجائے عزت کے ساتھ استعفیٰ دے دیا۔

بعد ازاں ایک مختصر وقفے میں طوفان تھما اور نعمت اللہ خان صاحب دوبارہ میئر کراچی بنے تو ان سے پرزور درخواست کی گئی۔ وہ معمولی سے کنٹریکٹ پر دوبارہ خدمت کے لیے تیار ہو گئے اور بھرپور معاونت کی۔ مگر جب مشرف دور میں ایم کیو ایم کے ساتھ دوبارہ اتحاد بنا تو وہی مداخلتیں، ذہنی اذیتیں اور دباؤ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔

ایک موقع پر شعیب بخاری صاحب کی طرف سے ایک دھمکی آمیز کال آئی تو پروفیسر مسعود جاوید صاحب نے براہِ راست ناظم کراچی اور کور کمانڈر کو معاملے کی لفظ بہ لفظ اطلاع دے دی۔ معاملہ اس قدر اوپر تک پہنچا کہ آفتاب شیخ اپنے ساتھیوں سمیت ڈاکٹر صاحب کے گھر “معافی” مانگنے پہنچ گئے۔ مردِ درویش اس نمائشی معافی کے پسِ پشت اصل حکم کے مرکز کو بخوبی سمجھتے تھے۔

اس کے باوجود انہوں نے نعمت اللہ خان صاحب کی نظامت کے ساتھ کام جاری رکھا، اور پوری شانِ خودداری کے ساتھ بلا کسی گارڈ، بلا کسی سرکاری گاڑی، غریب مریضوں کی خدمت کرتے رہے۔

عباسی شہید ہسپتال کے اسٹور دواؤں سے بھرے رہتے، اور لاکھوں مریضوں کی دعائیں ان عظیم انسانوں کے حصے میں آتیں۔

آپریشن تھیٹر میں کوئی کام اس وقت تک کسی اسسٹنٹ سرجن کے حوالے نہ کرتے جب تک وہ اس بات سے مکمل مطمئن نہ ہو جاتے کہ مریض کے لیے بہترین اور محفوظ ترین طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اپنے ساتھیوں اور عملے کے ساتھ نہایت شفقت اور احترام سے پیش آتے۔

پروفیسر مسعود جاوید صاحب مختصر، بامعنی اور شائستہ گفتگو کے عادی تھے۔ الفاظ کے انتخاب کا سلیقہ کوئی ان سے سیکھے۔ بزلہ سنجی ہو یا طنز، یا تدریس—ہر میدان میں یکتا تھے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ایف سی پی ایس پارٹ ون کی تیاری کے لیے صبح کے ناشتے پر خود ناشتا کروا کے بنیادی مضامین پڑھایا کرتے تھے۔

وہ پانچ وقت اللہ کے حضور جھکتے تھے، مگر کسی اور کے سامنے جھکنے کے قائل نہ تھے۔ خوف، مداہنت اور لالچ ان کی فطرت میں شامل نہ تھے۔

کبھی ان کے دولت کدے پر حاضری ہوتی تو ایسی بے مثال مہمان نوازی اور ایسا عزت افزا سلوک ملتا کہ انسان واقعی انسان بننے پر مجبور ہو جاتا۔

ہمارے لیے ان کی ایک ایک جھلک توانائی، تربیت، اور علمی، سائنسی و روحانی تقویت کا ذریعہ بنی۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم ان سے زیادہ فیض حاصل نہ کر سکے، مگر جو مہ و سال نصیب ہوئے وہ زندگی کے نایاب لمحات ہیں۔

جہاں جہاں بھی انہوں نے خدمات انجام دیں، وہاں مثال قائم کر دی۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین۔

 

مختصر تذکرۂ علمی و عملی سفر

  • سنٹرل ماڈل ہائی اسکول، لاہور (1954–1957) — میٹرک
    والی بال اور ایتھلیٹکس ٹیم کے رکن رہے
  • ڈاؤ میڈیکل کالج، کراچی (1959–1964) — ایم بی بی ایس
  • کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان سے نیوروسرجری میں فیلوشپ — جنوری 1971
  • برج پورٹ ہسپتال، کنیکٹی کٹ (1973–1974) — نیوروسرجری فیلوشپ
    ییل یونیورسٹی سے وابستہ ادارہ
  • انڈرگریجویٹ و پوسٹ گریجویٹ تدریس کا 25 سال سے زائد تجربہ
  • 40 سال کا نیوروسرجیکل عملی تجربہ
  • کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے بطور پروفیسر ریٹائرڈ
  • عباسی شہید اسپتال میں دو سال سے زائد میڈیکل سپرنٹنڈنٹ رہے
  • دو بار CPSP کے کونسلر منتخب ہوئے
  • ایک سال ڈائریکٹر پبلیکیشنز اور چیف کنٹرولر آف ایگزامینیشنز، CPSP

 

مصنف کا تعارف

ڈاکٹر ظفر اقبال ہیلتھ کیئر مینجمنٹ، کوالٹی اور مریض کی حفاظت کے شعبے میں تربیت اور عملی خدمات سے وابستہ ہیں۔ وہ اقدار کی بنیاد پر میڈیکل پریکٹس کے فروغ کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں۔ صحت عامہ کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ، بین الاقوامی تعلقات، ماحولیات، اقبالیات، سیاسی، ادبی اور قومی امور بھی ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

لنکڈ اِن پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:
Dr. Zafar Iqbal (LinkedIn)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔