پٹرول مہنگا

آئی ایم ایف نے پاکستان پر 11 نئی اور سخت شرائط عائد کردیں

آئی ایم ایف نے پاکستان پر 11 نئی سخت شرائط عائد کردی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے نے کرپشن کے خدشات کم کرنے، شوگر سیکٹر میں اشرافیہ کی اجارہ داری توڑنے، ترسیلات زر کی اصل لاگت جانچنے، پاور سیکٹر میں نجی شعبے کی شمولیت بڑھانے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ناقص کارکردگی بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔

آئی ایم ایف نے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کے دوسرے جائزے کی اسٹاف لیول رپورٹ جاری کی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ نئی 11 شرائط کے بعد ڈیڑھ سال میں مجموعی شرائط کی تعداد 64 تک پہنچ گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اگلے سال دسمبر تک اعلیٰ وفاقی سول سرونٹس کے اثاثوں کے گوشوارے سرکاری ویب سائٹ پر جاری کرنا ہوں گے، تاکہ آمدن اور اثاثوں میں فرق کی نشاندہی ہو سکے۔ حکومت یہ دائرہ کار صوبائی اعلیٰ افسران تک بڑھانے اور بینکوں کو ان گوشواروں تک مکمل رسائی دینے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان اکتوبر 2025 تک 10 محکموں میں کرپشن رسک پر مبنی ایکشن پلان شائع کرے گا، جبکہ سب سے زیادہ رسک والے اداروں کے لیے ایکشن پلان کی تیاری کی قیادت نیب کرے گا۔ صوبائی سطح پر کرپشن کی روک تھام کے لیے صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کو مالیاتی انٹیلیجنس تک رسائی اور مالی تحقیقات کی تربیت فراہم کی جائے گی۔

آئی ایم ایف نے مزید ہدایت دی ہے کہ پاکستان ترسیلات زر کی بڑھتی ہوئی لاگت—جو آئندہ برسوں میں 1.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے—کی مکمل جانچ کرے گا اور اگلے سال مئی تک ایک جامع ایکشن پلان پیش کرے گا۔ اسی طرح مقامی کرنسی بانڈ مارکیٹ میں رکاوٹوں پر تفصیلی مطالعہ کیا جائے گا اور ستمبر 2025 تک اس حوالے سے اسٹریٹجک ایکشن پلان جاری ہوگا۔

شوگر سیکٹر میں ’ایلیٹ کیپچر‘ ختم کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے حکم دیا ہے کہ وفاق اور صوبے اگلے سال جون تک چینی کی منڈی کے لیے قومی پالیسی پر اتفاق کریں گے، جس میں لائسنسنگ، قیمتوں کا تعین، درآمدات و برآمدات، زوننگ اور نفاذ کے ٹائم لائنز شامل ہوں گی۔

ایف بی آر کی ناقص کارکردگی کے باعث نئی شرائط میں کہا گیا ہے کہ حکومت دسمبر تک اصلاحاتی روڈ میپ جاری کرے، عملدرآمد ترجیحات طے کرے، اسٹافنگ اور ریونیو اثرات کا جائزہ لے اور کارکردگی کے اشاریے مرتب کرے۔ اس بنیاد پر تین اہم شعبوں میں مکمل عملدرآمد کیا جائے گا جن پر آئی ایم ایف اور حکومت کا اتفاق ہوچکا ہے۔

اگلے سال دسمبر تک حکومت کو درمیانی مدت کی جامع ٹیکس اصلاحاتی حکمتِ عملی بھی جاری کرنا ہوگی، جبکہ حیسکو اور سیپکو میں نجی شعبے کی شمولیت کے لیے پیشگی شرائط بھی مکمل کی جائیں گی۔ اسی مدت میں حکومت سات بڑی سرکاری کمپنیوں کے ساتھ پی ایس او معاہدے طے کرے گی۔

کمپنیز ایکٹ 2017 میں ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں گی تاکہ غیر فہرست شدہ کمپنیوں کی نگرانی مضبوط ہو اور کارپوریٹ گورننس عالمی معیارات کے مطابق بنائی جاسکے۔ خصوصی اقتصادی زونز کے قانون میں اصلاحات کے لیے بھی حکومت تصوراتی نوٹ جاری کرے گی۔

آئی ایم ایف کے مطابق اگر دسمبر 2025 تک ریونیو ہدف پورا نہ ہوا تو حکومت منی بجٹ لانے پر آمادہ ہے، جس میں کھاد اور زہروں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ، مہنگی میٹھی اشیاء پر نیا ٹیکس، اور متعدد اشیا کو معیاری سیلز ٹیکس ریٹ پر لانا شامل ہوگا۔

آئی ایم ایف نے گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ پر عملدرآمد کے ایکشن پلان کی اشاعت کی ڈیڈ لائن بھی آگے بڑھا دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔