سویڈن میں” بچوں کی انڈرورلڈ گینگز ”نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہری سلامتی کے ذمہ دار نظام کو چیلنج کررکھاہے۔نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل یہ ٹین ایجرزگینگ تیزی سے ملک میں تشدد پھیلا رہے ہیں۔
1کروڑ 60لاکھ آبادی کے ملک سویڈن میں گینگ وارکلچر کئی دہائیوں سے موجود ہے لیکن 1990کی دہائی کے دوران، ان گروہوں میں شمولیت کا ایک سخت ڈھانچہ تھا اور منشیات کی سمگلنگ کے راستے بھی محدود تھے۔آج کے گروہ مجرمانہ نیٹ ورکس ہیں جن کی خصوصیت کم سخت گیر اورلچکدار ڈھانچے ہیں جو سرحدوں کے پار کام کرتے ہیں اور کوکین جیسی اعلی قیمت والی منشیات کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔
اب یورپ میں بندوق بردار گروہ، مہلک تشدد کے سب سے زیادہ واقعات میں سے ایک ہے۔ ان میں بھی زیادہ تر گینگ سے متعلق ہے، ایسے حملے تقریباً روزانہ ہوتے ہیں۔اسی دوران سویڈن کے گینگزنے بچوں کو بھی ” ہٹ مین” کے طورپر بھرتی کرنا شروع کردیا۔
1990 کی بلقانی جنگوں کے بعد یوگوسلاوی ریاستوں سے آنے والے وافر اسلحہ کی وجہ سے دستی بم حملے ،ان گینگ وارز کی خوف ناک پہچان ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دستی بم کے حملے، کسی کو مارے بغیر، حریفوں کو دھمکانے کا ایک سستا طریقہ ہے۔گینگ اکثر انتباہ کے طور پر کسی کے دروازے یا رہائشی بلاک کے داخلی راستے پر دستی بم پھینکنے کا حکم دے سکتے ہیں۔اگر مجرم پکڑا جاتا ہے، تو اسے اکثر چھوٹی سزا دی جاتی ہے، کیونکہ اسے قتل کی کوشش نہیں سمجھا جاتا۔
یہ گینگ ایک مجرمانہ نیٹ ورک بھی استعمال کرتے ہیں جسے پولیس نے ” بزنس ماڈل ” کے طورپر بیان کیا ہے ۔اس میں بچوں کو ہتھیار لے جاکرکسی پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے تاکہ بڑے گینگسٹرزکو قانونی پیچیدگیوں میں الجھنے سے بچایا جائے۔سویڈن میں، 15سال سے کم عمر کے بچوں کو جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا، اور 15سے 17سال کی عمر کے نوجوان عام طور پر نابالغوں کے لیے ایک خاص محفوظ سرکاری مراکز میں وقت گزارتے ہیں،جو بالغوں کی جیلوں کے بجائے نیشنل بورڈ آف انسٹیٹیوشنل کیئر (SiS) کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔
نابالغوں سے تفتیش بھی پولیس افسران کے لیے مشکل ہوتی ہے ،کیونکہ حفاظتی قوانین کے تحت بچوں سے پوچھ گچھ پر سخت پابندی ہے، اوراس کے لیے موزوں بالغ افراد کی موجودگی اور خصوصی تربیت یافتہ افسران کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بعض صورتوں میں، سماجی خدمات کے ادارے ایسے انٹرویو زمیں رکاوٹ بن سکتے ہیں اگر یہ بچے کے لیے نقصان دہ سمجھا جائے۔کیس میں ان کی شمولیت سے بھی راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔ بڑوں کی نسبت بچوں کے مالیاتی یا لاجسٹک روابط جیسے بینک اکائونٹس، گاڑیوں کی رجسٹریشن یا ملازمت کاریکارڈوغیر بھی دستیاب نہیں ہوتا ۔یہ سب کچھ ان لوگوں تک پہنچنااور سراغ لگانا کہیں زیادہ مشکل بنا دیتا ہے۔
2023 کی پولیس رپورٹ کے مطابق، 18سال سے کم عمر کے تقریبا 1,700افراد کو مجرمانہ نیٹ ورکس میں سرگرم قرار دیا گیاتھا، لیکن بعد میں یہ تعداد بڑھ گئی ہے۔ حالیہ برسوں میں گینگ جرائم میں ملوث بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مزید کم عمر ” ہٹ مین ” بھی بڑھ گئے ہیں۔رواں سال جنوری اور اگست کے درمیان، سویڈش پولیس کے مطابق تیرہ اور چودہ سال کے 66بچوں کو گرفتار کیا گیا ۔ 2024میں اسی عرصے کے دوران یہ تعداد 27تھی۔
کچھ سال پہلے تک، سماجی نگہداشت یا کم آمدنی والے اضلاع میں بچوں کو گروہوں کے ذریعے بھرتی کیے جانے کا سب سے زیادہ خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم، حالیہ رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی پس منظر اور کسی بھی محلے کے بچوں کو ان گینگزمیں شامل کرنے کے لیے منتخب کیا جا سکتا ہے۔دس سال پہلے، بھرتی کرنے والوں کو اس جگہ جانا پڑتا تھا جہاں بچے جسمانی طور پرملتے ہیں، لیکن اب سوشل میڈیا ایک راستہ ہے۔
انڈرورلڈ میں ہٹ مین کے طورپر بچوں کی بھرتی کا، تفتیش کارو ں کے خیال میں، اس وقت شروع ہوتی ہے ،جب کوئی کم سن ایسے کسی اشتہار کا جواب دے جو ممکنہ طور پر قتل کا کوئی ٹاسک ،سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے سنیپ چیٹ، ٹِک ٹِک، اور انسٹاگرام، یا ٹیلیگرام کی انکرپٹڈ ایپس پر گردش کر رہا ہوتاہے، عام طور پر بچوں کوانہی ذرائع سے بھرتی کیا جاتا ہے۔ان اشتہارات کے ساتھ ” معاوضہ” بھی درج ہوتاہے۔
2024 کے آخر میں، ٹیلی گرام نے ایک چینل کو بند کر دیا جس کا نام Samurai Barnen(سمورائی چلڈرن)تھا، جس کے تقریباً 11,000ممبران تھے، جب سویڈش پولیس نے پلیٹ فارم کو مطلع کیا۔
حملوں کو اکثر”چیلنجز” یا ” مشن”کے طور پر تیار کیا جاتا ہے، جس کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ ایسی پوسٹوں کو بچوں کے لیے زیادہ دلفریب اور کم پریشان کن بنانے کے لیے یہ ایک آن لائن وڈیو گیمز کی ٹیکنیک ہے۔
سویڈن میں نوجوانوں کی سب سے بڑی تنظیم فریشوسیٹ(Fryshuset) ،جو گینگز کے جال میں پھنسے بچوں کونکالنے کا ایک پروگرام چلاتی ہے، کے پراجیکٹ مینیجر سلمان خان نے الجزیرہ کو بتایا کہ بچے کے کسی ریکروٹر کے ساتھ پہلے رابطے سے لے کرعملاً پرتشدد کارروائی کرنے تک کا وقت کچھ دنوں سے لے کر ایک ماہ تک کا ہو سکتا ہے۔وہ اس بھرتی کے عمل کو گرومنگ کی ایک شکل کے طور پر بیان کرتے ہیں جہاں 12سال سے کم عمر لڑکے، اور کچھ حد تک لڑکیاں، جو کھیل اور حقیقی زندگی کے درمیان فرق نہیں جانتے ، ان کو پرتشدد کارروائی کے لیے، مجرمانہ انڈرورلڈ میں پھنسالیا جاتا ہے۔
ایس آئی ایس مراکز میں موجود بچوں سے اپنی بات چیت کے دوران انہو ںنے مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سے لوگ اب گینگز میں کس طرح کا کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ان کا بتاناہے کہ دس سال پہلے تک، ہر کوئی ٹونی مونٹانا(فلم سکارفیس میں فرضی کرائم باس)بننا چاہتا تھا،لیکن اب گینگ لیڈر بننے کے بجائے دستی بم پھینکنا یا کسی کو گولی مارنا سٹیٹس بن گیا ہے۔مسلح حملہ کرنے سے بچے کو گینگ میں اہمیت کا احساس اور جلدی پیسہ مل سکتاہے جس کی مدد سے وہ کپڑے، فون، کاریں اور پرتعیشن زندگی حاصل کرپائیں جیسی وہ ٹی وی سیریزوغیرہ میں دیکھتے ہیں۔
یہ تبدیلی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا اور فلموں میں تشدد کی گلیمرائزیشن نے فوری( بدنام) شہرت کو دیرپا حیثیت سے زیادہ مطلوب آرزومیں بدل دیا ہے۔
تاہم جیسے جیسے تشدد بڑھ رہا ہے، ان میں سے کچھ جنہوں نے کبھی سویڈن کی یہ مجرمانہ انڈرورلڈ بنانے میں مدد کی تھی اب اسے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔خبررساں ادارے الجزیرہ نے وسطی اسٹاک ہوم کے ایک اپارٹمنٹ میں موٹرسائیکل گینگ چوسن اونز کے 53سالہ سابق گینگسٹر عیسیٰ کاہ سے ملاقات کی، جو منشیات کے کاروبار کے لیے مشہور تھا۔
کاہ بھی نوعمری میں ہی مجرمانہ دنیا کا حصہ بنا تھا۔11سال کی عمر میں، اس نے چھوٹے جرائم کے ساتھ شروعات کی اور اگلے 30سال میں، اس نے بتدریج گینگ لیڈر کی حیثیت اختیار کی۔ وہ کہتاہے کہ پہلے اور آج کے دور میں ایک واضح فرق ہے، جہاں بچے کا پہلا جرم ہی قتل ہو سکتا ہے۔2020میں، اس نے اپنی مجرمانہ زندگی کوخون زہریلا ہوجانے کے مرض کا علاج کرانے کے لیے سٹاک ہوم کے ایک ہسپتال میں آٹھ ماہ کے دوران ترک کردیاتھا۔ یہ ایک ایسا دور تھا جس نے اسے ہر اس کام پر غور کرنے پر مجبور کیا جو اس نے کیا تھا اور ہر اس کے بارے میں جس کو تکلیف پہنچائی تھی۔ان مہینوں میں، اس نے کہا کہ خدا نے اسے دکھایا کہ گینگ لائف کی شاندار حیثیت کے پیچھے، اس کے پاس کوئی حقیقی طاقت نہیں ۔ اس کے بجائے، اس نے محسوس کیا کہ وہ صرف صدمے، شرم اور اضطراب سے دوچار ہے۔اب وہ ایک نئے مشن پر ہے: بچوں کو اس کے راستے پر چلنے سے روکنا۔ پانچ سال تک، اس نے اپنے تجربے کو لیکچر دینے، کوچ کرنے اور اس بات پر حکمت عملی بنانے کے لیے استعمال کیا ہے کہ گینگ تشدد کے اس چکر کو کیسے ختم کیا جائے جس میں وہ ایک بار پھنس گیا تھا۔
آج کے نابالغوں میں جو جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں، کاہ وہی خوفزدہ بچہ دیکھ سکتا ہے جو کبھی وہ خود تھا، صحبت کی تلاش میں اور اکثر مشکل گھریلو زندگی سے بچنے کی کوشش کرتا تھا۔کاہ نے وضاحت کی کہ ماضی میں گینگ ممبر ہونے کے دوران وفاداری اور ایک قسم کے غیرت کے ضابطے کی پابندی ضروری تھی، آج کا گینگ کلچر نرم اور لین دین پر مبنی ہے۔ وہ کہتاہے کہ اس سے پہلے گینگز کے بھی قواعدوضوابط ہواکرتے تھے؛ آپ کسی خاندان کو اس کھیل کا حصہ نہیں بناسکتے تھے ،نوجوانوں کو شامل نہیں کر سکتے تھے۔ اب یہ دہشت ہے، یہ ہر طرف پھیل چکی ہے؛ اب کوئی سویڈش بچہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر اپنے فون پر قتل کا معاہدہ حاصل کر سکتا ہے۔”ایسا لگتا ہے جیسے پنڈورا باکس کھل گیا ہے اور ہم اسے بند نہیں کر سکتے”، کاہ نے کہا۔
ایک سویڈش ڈیٹا اور ریسرچ کمپنی ایکٹا پبلیکا کے 2025کے مطالعے کے مطابق،معاشرے کے کمزور، لاوارث اور نظراندا زبچوں کوخصوصی رہائشی نگہداشت کی سہولیات میں رکھا جاتاہے جنہیں HVBہومز کہا جاتا ہے، ان بچوں اور نوعمروں کے لیے ہیں جو گھر میں محفوظ طریقے سے نہیں رہ سکتے۔ وجوہات غفلت اور تشدد سے لے کر منشیات کے استعمال تک ہوسکتی ہیں۔یہ پرتشدد کارروائیاں کرنے کے لیے گروہوں کے ذریعے نشانہ بنایا جانے والا کلیدی گروہ ہے۔
تقریبا 6ہزاربچوں اور نوجوانوں کو ہر سال ایچ وی بی گھروں میں لایا جاتا ہے۔اپنی نسل کے دوسرے نوعمروں کی طرح، ایچ بی وی گھروں میںبھی بچے اکثر سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں۔ بھرتی کرنے والے آسانی سے اپنی جیو ٹیگ شدہ پوسٹس کو نشانہ بنانے کے لیے ان کی نگرانی کر سکتے ہیں۔حالیہ مطالعہ نے ایسے معاملات کی بھی نشاند ہی کی جس میں پہلے سے ہی HVBگھروں میں بھرتی کیے گئے بچوں کو ، دوسرے لوگوں کو استعمال کرنے کے لیے آگے بڑھایا گیا۔
موجودہ سویڈش حکومت، گینگ کرائمزپر کریک ڈائون کرنے کے لیے تعزیری اقدامات میں اضافہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس میں اس اصول کو ختم کرنا بھی شامل ہے جس کے تحت 18 سے 20سال کے بچوں کو کم سزائیں مل سکتی ہیں۔ اگلے سال کے انتخابات سے پہلے، اس نے سنگین جرائم کے لیے ذمہ داری کی عمر کو کم کرنے کی تجویز پیش کی ہے، یعنی 13سال سے کم عمر کے بچوں کو سزا سنائی جا سکتی ہے، اور ساتھ ہی سزا پانے والوں کے لیے خصوصی یوتھ جیل یونٹ بنانے کی تجویز دی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos