ظہیرالحسن شاہ۔ فائل فوٹو

قاضی فائز کو دھمکی دینے پر کالعدم تنظیم کےرہنما کو ساڑھے 35 برس قید

لاہور میں انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے کالعدم تنظیم کے نائب امیر ظہیر الحسن شاہ کو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دھمکی دینے، مذہبی منافرت پھیلانے اور دیگر الزامات ثابت ہونے پر مجموعی طور پر ساڑھے 35 برس قید کی سزا سُنادی۔ ظہیر الحسن شاہ پر انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کی متعدد دفعات کے تحت مجموعی طور چھ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

یہ مقدمہ جولائی 2024 میں لاہور کے تھانہ قلعہ گجر خان میں درج کیا گیا تھا۔ مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق ظہیر الحسن نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی تھی۔مقدمے میں انسدادِ دہشتگردی ایکٹ، مذہبی منافرت، فساد پھیلانے، عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی دفعات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کو دھمکی، کارِ سرکار میں مداخلت اور قانونی فرائض کی انجام دہی میں رُکاوٹ ڈالنے سے متعلق دفعات شامل کی گئی تھیں۔

جیل وارنٹ کے مطابق ظہیر الحسن کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 (1) (بی) (کسی کی جان کو خطرے میں ڈالنا)کے تحت 10 برس قید اور دو لاکھ جُرمانے کی سزا سُنائی گئی ہے۔انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 جی (جو کہ دہشت گردی سے متعلق ہے) کے تحت پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی ہے، اسی دفعہ کے تحت ان پر ایک لاکھ روپے جُرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ظہیر الحسن کو منافرت اور منافرت انگیز مواد پھیلانے کے الزام میں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 11 ڈبیلو کے تحت بھی پانچ برس کی سزا سُنائی گئی ہے اور ایک لاکھ روپے کا جُرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

کالعدم تنظیم کے رہنما کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 505 (سرکاری افسران کو ریاست کے خلاف اُکسانا) کے تحت بھی سات برس قید کی سزا سُنائی گئی ہے، اسی دفعہ کے تحت ان پر ایک لاکھ روپے کا جُرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ظہیر الحسن شاہ کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 117 کے تحت تین برس اور دفعہ 188 کے تحت چھ مہینے کی سزائیں بھی سُنائی گئی ہیں۔ تاہم جیل وارنٹ کے مطابق ان سزاؤں کا عملدرآمد کا آغاز ایک ساتھ ہو گا، یعنی سادہ الفاظ میں انھیں 10 برس جیل میں گزارنے ہوں گے۔

ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا تھا کہ کالعدم ٹی ایل پی کے رہنما ظہیر الحسن ایک اجتماع کے دوران سابق چیف جسٹس کے خلاف دھمکی آمیز تقریر کر رہے تھے۔چھ فروری 2024 کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے توہینِ مذہب کے الزام میں قید ایک شخص کو رہا کرتے ہوئے اس کے خلاف درج ایف آئی آر سے توہینِ مذہب کی دفعات 298 سی اور 295 بی حذف کرنے کا حکم دیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔