فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپر انٹیلی جنس انسانیت کیلیے دو دھاری تلوار

اے آئی کے بعد اب سپر انٹیلی جنس ٹیکنالوجی نے بھی اپنی دھاک بٹھانا شروع کردی ہے۔ ماہرین نے اس ڈرامائی جدت کو انسانیت کیلئے دو دھاری تلوار قرار دیا ہے۔ جس سے ایک طرف شدید خطرات ہیں تو دوسری جانب غیرمعمولی اختیارات کا حصول ممکن ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسی سلسلے میں گوگل کی جانب سے جیمنائی 3 کے لانچ ہوتے ہی سپر انٹیلی جنس کی پہلی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ جیمنائی 3 کی متعدد طریقوں سے کام کرنے کی صلاحیتوں نے فوراً حریف کمپنی کو بھی اپنا سپر انٹیلی جنس ماڈل تیارکرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اگرچہ اس حریف نے جواب میں اپنا 5.2 ماڈل پیش کیا ہے۔ لیکن جیمنائی 3 تیز رفتاری اورذہانت میں ایک مکمل ذاتی مشیر کے طور پر امور سنبھال چکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ترقی کی یہ رفتار سپر انٹیلی جنس کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل کرچکی ہے۔ تاہم اس کے تباہ کن پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے تو آئندہ چند برسوں میں نوکریوں کا مکمل خاتمہ ہوسکتا ہے۔ جس سے تاریخی بے روزگاری بڑھے گی۔ جبکہ الگورتھمک نگرانی سے عام افراد کی نگرانی بالکل آسان ہوجائے گی۔ یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں اپنے فوائد چند کارپوریٹ مالکان تک محدود کر کے معاشی عدم مساوات میں شدید اضافہ کرے گی اور غلط معلومات کے سیلاب سے جمہوری آزادیوں کو بھی ختم کرسکتی ہے۔

دوسری طرف عام انسان کو بھی اس سے انقلابی طاقت حاصل ہوسکتی ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی اے آئی انڈیکس 2025ء رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سپر انٹلی جنس ماڈلز کے اثرات معاشی و سماجی سطح پر حیران کن رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر حکومتی سطح پر پالیسی ساز فریم ورک نہیں بنائے گئے تو اس سے جڑے خطرات میں تیزی سے اضافہ ہو جائے گا۔ اسٹینفورڈ انڈیکس کی رپورٹ کے بقول دنیا کی طاقتور کمپنیاں سپر انٹلی جنس کو تیزی سے مارکیٹ میں لانچ کر رہی ہیں۔ جو انسانی صلاحیتوں کو پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

دوسری جانب العربیہ نیوز میں مائیکرو سافٹ کے ماہر مصطفیٰ سلیمان نے خبردار کیا ہے کہ سپر انٹیلی جنس ایک ایسا نظام ہے، جو کسی بھی علمی کام کو انجام دینے میں تمام انسانوں کی مجموعی کارکردگی سے بہتر ہوسکتا ہے۔ حقیقی خطرہ تب شروع ہوگا جب یہ نظام اپنے مقاصد خود طے کرکے آزادانہ طور پر کام کرنے لگے گا۔ سلیمان اس خطرے کو کنٹرول کرنے کیلئے طبی شعبے کو سب سے موزوں میدان سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا اپنا مستقبل مشینوں کے حوالے کرنے کیلئے تیار ہیں یا نہیں۔

اسی طرح ٹیکنالوجی کے ناقدین اسے محض ایک حکمت عملی قرار دیتے ہیں، جو دراصل ٹیک کمپنیوں کی طاقت اور منافع بڑھانے کی چال ہے۔ ان ماہرین کے مطابق یہ خوف کا بیانیہ حقیقی سماجی مسائل جیسے عام افراد کی نگرانی اور الگورتھمک تعصب سے توجہ ہٹاتا ہے۔

تجزیہ کار ڈینیئل سیوارڈ کا کہنا ہے کہ یہ وجودی خطرے کا بیانیہ ایک سیاسی چال ہے۔ جب حکومتیں سپر اے آئی کیلئے قانون سازی کر رہی ہوتی ہیں تو وہ کارکنوں کی الگورتھمک نگرانی اور خودکار ہتھیاروں جیسے حقیقی خطرات اور مسائل کو نظرانداز کردیتی ہیں۔ یہ حکمت عملی بڑے ٹیکنالوجی اداروں کو اپنا کاروبار تیز کرنے اور جمہوری نگرانی سے بچنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ سپر انٹیلی جنس کی بحث مشینوں کے بارے میں کم اور انسانوں کا مستقبل طے کرنے کا اختیار ایک چھوٹے گروہ کے ہاتھ میں دینے کی حکمت عملی کے بارے میں زیادہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل وہ پہلا ملک ہے جو ان ٹیک کمپنیوں کی مدد سے الگورتھمک مانیٹرنگ لاکھوں افراد کی نگرانی کرکے ان کو نشانہ بنارہا ہے اور مستقبل میں ایسا ماڈل دنیا کے دیگر ممالک کی حکومتیں بھی اپنا سکتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔