امت رپورٹ :
آخرکار سرکاری تصدیق ہو گئی ہے کہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں یہودیوں کی تقریب کے شرکا پر فائرنگ کرکے سولہ افراد کو ہلاک کرنے والے باپ بیٹے کا تعلق بھارت سے تھا۔ جس کے بعد سے اس واقعہ کا تعلق پاکستان سے جوڑنے والوں کا منہ کالا ہو گیا ہے، اور وہ اپنا سیاہ چہرہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔
منگل کے روز آسٹریلوی حکام نے سرکاری طور پر تصدیق کی کہ بونڈی ساحل پر فائرنگ کے واقعہ میں ملوث باپ بیٹے کا تعلق بھارتی ریاست سے ہے۔ اور یہ کہ دونوں نے نومبر کا تقریباً پورا مہینہ فلپائن میں گزارا۔ منیلا امیگریشن کی ترجمان ڈینا سینڈوول نے بین الاقوامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ پچاس سالہ بھارتی شہری ساجد اکرم اور اس کا چوبیس سالہ بیٹا آسٹریلوی شہری نوید اکرم، یکم نومبر دو ہزار پچیس کو سڈنی سے اکٹھے فلپائن پہنچے۔ ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر یہ سفر کیا۔ جبکہ نوید اکرم نے آسٹریلوی پاسپورٹ پر سفر کیا۔
28 نومبر کو دونوں واپس سڈنی روانہ ہوگئے۔ آسٹریلوی پولیس کے بقول دونوں ملزمان کے سفر کے مقصد کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ نیوز کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ ابتدائی شواہد ایک ایسے دہشت گرد حملے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو داعش سے متاثر ہوکر کیا گیا۔
اس سے قبل حملہ آور نوید اکرم کے ساتھ کام کرنے والا ایک دوست یہ انکشاف کر چکا تھا کہ نوید اکرم کا والد ساجد اکرم بھارتی شہری ہے، جس نے اٹلی نژاد آسٹریلوی خاتون سے شادی کی تھی اور بعد ازاں نوید اکرم آسٹریلیا میں ہی پیدا ہوا۔ یہ تصدیق سرکاری طور پر کر دی گئی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کے ہمدرد بیشتر اکائونٹس سے، جن میں سے زیادہ تر بیرون ملک سے چلائے جارہے ہیں، اس واقعہ کے ملزمان کا تعلق پاکستان سے جوڑنے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے۔ اب یہ تصدیق ہونے کے بعد کہ ملزم باپ بیٹے کا تعلق پاکستان نہیں بلکہ بھارت سے تھا تو اپنا کالا چہرہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ اسی طرح بھارتی اور افغان سوشل میڈیا پر بھی سوگ طاری ہے۔
حملہ آور باپ بیٹوں کا تعلق بھارت سے نکل آنے پر جہاں گودی میڈیا بغلیں جھانک رہا ہے۔ وہیں مودی سرکار بھی بوکھلا گئی ہے۔ عالمی خبر ایجنسی رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست تلنگانہ کی پولیس نے یہ بھونڈا مؤقف اپنایا ہے کہ ساجد اکرم کا خاندان ایک اچھے بیک گرائونڈ سے تعلق رکھتا ہے، انتہا پسندی کہیں اور پروان چڑھی۔ ریاستی پولیس کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پچاس سالہ ساجد اکرم کا تعلق حیدرآباد (دکن) سے تھا، لیکن اس کی انتہا پسندی کا بظاہر بھارت یا کسی مقامی اثر و رسوخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ اس کے خاندان کے لوگوں کو بھی اس کے انتہا پسندانہ خیالات کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ساجد اکرم انیس سو اٹھانوے میں اسٹوڈنٹ ویزے پر آسٹریلیا کے لیے بھارت سے نکلا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنے خاندان سے ملنے چھ بار بھارت آیا۔
تلنگانہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ بھارت میں اس کا کوئی مجرمانہ یا منفی ریکارڈ نہیں تھا۔ واضح رہے کہ اس واقعہ کے بعد سے بھارت نے خود کو ساجد اکرم سے دور رکھنے کی کوشش کی، حالانکہ مودی سرکار کو پہلے ہی علم ہو گیا تھا کہ وہ بھارتی شہری ہے۔ تاہم گودی میڈیا کو خاص ہدایت دی گئی کہ جب تک حقیقت منظرعام پر نہیں آجاتی، تب تک پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے باپ بیٹے کا تعلق اس سے ہی جوڑا جائے۔ جس پر گودی میڈیا اور اس کا ذیلی سوشل میڈیا نیٹ ورک متحرک ہو گیا۔ جس سے افغان سوشل میڈیا اور پی ٹی آئی کے ہمدرد سوشل میڈیا کے بعض اکائونٹس نے بھرپور تعاون کیا۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اب حقیقت سامنے آجانے کے بعد کھسیانے بھارتی حکام یہ کہہ کر جان چھڑا رہے ہیں کہ ’’ساجد اکرم بھارت سے تو ایک پرامن شہری کے طور پر نکلا تھا، کہیں اور جاکر انتہا پسند ہو گیا، لہٰذا یہ ہماری ذمہ داری نہیں‘‘۔
یاد رہے کہ آسٹریلوی انٹیلی جنس نے دو ہزار انیس میں نوید اکرم سے داعش کے سڈنی سیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں تحقیقات کی تھیں۔ لیکن اس فوری خطرہ تصور نہیں کیا گیا تھا۔ بعد ازاں وہ اپنے والد کے ساتھ رواں برس نومبر میں فلپائن چلا گیا اور ایسا امکان موجود ہے کہ اس نے فلپائن میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کی۔ کیونکہ ایک وقت میں فلپائن داعش کا بہت مضبوط گڑھ رہا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos