سندھ کے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات فدا حسین مستوئی نے’’جیل سے کام‘‘(ورک فرام جیل)ماڈل تجویز کیا ہے جس کے تحت قیدیوں کو صنعتی ماہرین تربیت دیں گے اور وہ اپنی سزا کاٹتے ہوئے نتیجہ خیز کاموں میں مصروف رہیں گے، اس طرح وہ معاشرے میں ایک مفید شہری کے طور پر دوبارہ شامل ہو سکیں گے۔کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے دورے پر ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے،مستوئی نے ڈی آئی جی کی نگرانی میں ایک ٹاسک فورس کی تشکیل کی تجویز پیش کی جس میں کاٹی اور مختلف صنعتی شعبوں کے نمائندے شامل ہوں۔ ٹاسک فورس جیلوں میں جدید مشینری اور آلات کی فراہمی، مارکیٹ سے متعلقہ مہارتیں فراہم کرنے، اور قیدیوں کے لیے صنعتی آرڈرز اور منصوبوں کا بندوبست کرنے پر توجہ دے ۔
مجوزہ ماڈل کے تحت، ٹیکسٹائل ملز اور فیکٹریاں جیلوں کو پراجیکٹس دے سکتی ہیں، جن سے قیدیوں کو ایک منظم افرادی قوت کے طور پر کام کرنےکاموقع ملے۔ رہائی کے بعد، تربیت یافتہ قیدی انہی صنعتوں میں روزگار حاصل کر سکتے ہیں،اس طرح مارکیٹ میں ہنر مند لیبر کی فراہمی کے دوران تعطل کو کم کیا جا سکتا ہے۔
آئی جی جیل خانہ جات نے کہا کہ جیلوں کو صرف سزا کی جگہوں کے طور پر نہیں بلکہ اصلاح، تربیت اور بحالی کے مراکز کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ ان کا کہناتھاکہ قیدیوں کو اکثر اپنی سزا پوری کرنے کے بعد معاشرے کی طرف سے مسترد کر دیا جاتا ہے، جس سے بہت سے لوگوں کو دوبارہ جرائم کی طرف دھکیل دیا جاتا ہےجو جرائم دہرائے جانے کے پیچھے ایک اہم عنصر ہے۔اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے، محکمہ جیل خانہ جات جدید ہنر مندی اور پیشہ ورانہ تربیت کے پروگرام متعارف کرا رہا ہے، لیکن ان کی کامیابی کا انحصار صنعتی شعبے کے فعال تعاون پر ہے۔ فدامستوئی نے انکشاف کیا کہ سندھ کی جیلوں میں اس وقت لگ بھگ 28 ہزارقیدی موجود ہیں جن کی گنجائش12 ہزار400سے زیادہ ہے، پھر بھی قید کو اصلاحات کے موقع میں تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos