عثمان ہادی

بنگلہ دیشی عوام نے رہنماکے قتل میں بھارت پر انگلیاں اٹھادیں

بنگلہ دیشی طلبہ قیادت کا کہنا ہے کہ جب تک نوجوان رہنما ہادی کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل جاتا، احتجاج جاری رہے گا۔ہمیں معلوم ہے کہ قاتل،کم از کم، پولیس اور دیگر لوگوں کی قیاس آرائیوں سے،ممکنہ طورپرسرحد کے راستے بھارت فرار ہوا۔ بنگلہ دیشی فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حوالگی کا عوامی طور پرمطالبہ کرتے ہوئے نئی دہلی پر سیاسی تشدد کے ذمہ داروں کو بچانے کا الزام لگایا ہے۔شاہ باغ میں ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے، سابق لیفٹیننٹ کرنل حسین الرحمان، جو حسینہ کے دور حکومت میں جبری گمشدگی کا شکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں، انہوں نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ بنگلہ دیش میں آمرانہ طرز حکمرانی کی حمایت کرتارہا۔رحمن نے ہادی کے قاتلوں کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا، جو ان کے بقول بھارت فرار ہو گئے ، اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ انہیں بھی شیخ حسینہ کے ساتھ بنگلہ دیش میں مقدمے کا سامنا کرنا چاہیے۔

نئی دہلی میں بنگلہ دیشی ہائی کمیشن نے کہا ہے کہ بھارت نے اپنی طرف سے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی "اندرونی صورتحال” پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے لیکن وہ ملکی معاملات میں ملوث نہیں ہوگا۔کمیشن کے ترجمان نے ایک بیان میں کہاکہ بھارت اور بنگلہ دیش دونوں کے سینئر حکام اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بنگلہ دیش کی داخلی صورت حال ستحکام پذیر ہے، جس کے لیے مکمل اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

میڈیارپورٹس کے مطابق شریف عثمان ہادی کی ہلاکت میں ملوث موٹرسائیکل چلانے والے افراد میں سے ایک پکڑا گیا تھا، اور کئی دوسروں کا اس واقعے سے منسلک ہونے کا شبہ ہے لیکن ابھی تک اور کوئی ملزم پکڑا نہیں گیا۔
الجزیرہ نے رپورٹ کیا ہے کہ ڈھاکہ میں بہت زیادہ کشیدگی ہے۔بنگلہ دیشی انسانی حقوق کے وکیل تکبیر ہدا نے کہا ہے کہ ہادی کا قتل اور اس کے بعد بنگلہ دیش میں تشدد ایک اہم سیاسی تبدیلی اور سیکورٹی کی ناکامی کی نمائندگی کرتا ہے۔ہادی کی شوٹنگ ایک عجیب واقعہ ہے کیونکہ بنگلہ دیش میں آتشیں تشدد نایاب ہے،یہ قتل ملکی سیاست کا اہم موڑ ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرزکے مطابق عبوری حکومت نے عوام پر زور دیا کہ وہ ہر قسم کے تشدد کی مزاحمت کریں جس کا ارتکاب کچھ چند عناصرنے کیا تھا۔یہ ہماری قوم کی تاریخ کا ایک نازک لمحہ ہے جب ہم ایک تاریخی جمہوری منتقلی کی طرف جا رہے ہیں،ہم اسے ان چند لوگوں کے ہاتھوں پٹڑی سے اترنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں جو افراتفری کوہوا دیتے ہیں اور امن کو نقصان پہنچا تے ہیں۔دریں اثنا حکومت نے اخبارات کے دفاتر پر حملوں کے بعد کہا کہ صحافیوں پر حملے،سچ پر حملے ہیں، ہم آپ سے مکمل انصاف کا وعدہ کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔