اسلام آباد کی عدالت نے 2010 کے ایئربلو طیارہ حادثے کے8 متاثرین کے اہل خانہ کو مجموعی طور پر تقریباً5اعشاریہ 4 ارب روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیاہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ، جس کی سربراہی جسٹس ڈاکٹر رسول بخش مرجت کر رہے تھے، نے فضائی کمپنی کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ایئرلائن کی ذمہ داری برقرار رکھی اور مقدمے میں تاخیر پرکمپنی کو 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔
یہ حادثہ 28 جولائی 2010 کو پیش آیا جب کراچی سے اسلام آباد آنے والی ایئربلو کی پرواز ED202 دارلحکومت کے قریب مارگلہ پہاڑ سے ٹکراکرتباہ ہوگئی تھی۔
ایئر بس A321-خراب موسمی حالات میں فائنل اپروچ کے دوران حادثے کا شکار بنی جس میں سوار عملے کے 6 ارکان سمیت تمام 152 افراد مارے گئے تھے۔ اسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہلک فضائی حادثہ قرار دیا جاتا ہے۔پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کی سرکاری تحقیقات کے مطابق حادثہ کنٹرولڈ فلائٹ اِن ٹو ٹیرین (CFIT) تھا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں پائلٹ کی غلطی کو بنیادی سبب قرار دیا گیا جس میں مقررہ محفوظ بلندی سے نیچے اترنا اور خراب حد نگاہ میں سرکلنگ اپروچ کے دوران معیاری آپریٹنگ طریقہ کار سے انحراف شامل تھا۔تفتیش کاروں نے کاک پٹ ریسورس مینجمنٹ کی کمزوری اور بارش و نچلے بادلوں جیسے مشکل موسمی حالات کی بھی نشاندہی کی۔ بعد ازاں عدالتی مشاہدات اور رپورٹس میں کہا گیا کہ ایئر ٹریفک کنٹرول کی کوتاہیوں نے بھی حادثے سے قبل غیر محفوظ حالات پیدا کرنے میں کردار ادا کیا۔
ایئربلیو حادثے کی تحقیقات کا اعلان ہونے کے بعد کوئی بھی واضح رپورٹ 10 برس تک منظر عام پر نہیں آ سکی ۔ 2020 میں اس وقت کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے کراچی میں مسافر طیارے کے حادثے کی ابتدائی رپورٹ کے ساتھ ایئر بلیو حادثے کے بارے میں بتایا کہ یہ پائلٹس کی غلطی کی وجہ سے پیش آیا تھا۔ غلام سرور نے پارلیمنٹ میں بتایا تھاکہ 2010 کا ائیر بلیو طیارہ حادثہ، 2012 کابھوجا طیارہ حادثہ اور پی آئی اے طیارہ حادثہ پائلٹس اور کاک پٹ کریو کی غلطی سے ہوا۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ کے صدر ائیر کمووڈور خواجہ ایم مجید کی سربراہی میں 7 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی جس میں تکنیکی اور آپریشنل فیلڈ میں مہارت رکھنے والے افراد اور ائیربلیو کا ایک نمائندہ بھی شامل تھا۔
نومبر 2011 میں اس وقت کے وزیردفاع چوہدری احمد مختار نے کہا تھا کہ یئربلیو کا مسافر طیارہ پائلٹ کی غلطی کی وجہ سے تباہ ہوا تھا۔ایک ٹیلی وژن چینل کو دیے گئے انٹرویو میں احمد مختار نے کہا کہ کنٹرول ٹاور اور پائلٹ کے درمیان حادثے کے آخری لمحات میں ہونے والی گفتگو کی بناء پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔
اُس روز موسم خراب تھا اور تیز بارش ہو رہی تھی۔ کراچی سے آنے والی ایئربلیو کی اس پرواز سے قبل دو یا تین جہاز اترے بغیر اسلام آباد کی فضاء سے لوٹ چکے تھے۔ریکارڈنگ کے مطابق جب ایئربلیو فلائٹ نے کنٹرول ٹاور سے رابطہ کر کے اترنے کی اجازت طلب کی تو جہاز کے کپتان کو بتایا گیا کہ موسم موافق نہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں طے شدہ اصول کے مطابق یہ جہاز کے کپتان کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ اترنا چاہتا ہے یا نہیں۔ فلائٹ دو صفر دو کے کپتان نے اترنے کا فیصلہ کیا اور کنٹرول ٹاور نے انہیں تمام متعلقہ تکنیکی تفصیلات جس میں دیکھ سکنے کی صلاحیت، ہوا کی رفتار اور رخ اور دیگر عوامل سے آگاہ کر دیا۔اس کے بعد پائلٹ نے جیسا کہ طریقہ کار ہے، ریڈار سے رابطہ کیا اور اپنی پوزیشن چیک کی۔ پائلٹ دوبارہ کنٹرول ٹاور کے ساتھ رابطے میں آ گیا۔ طے شدہ اصول کے مطابق ایک ہزار فٹ کے فاصلے سے پائلٹ کو رن وے نظر آنا چاہیے۔ جب وہ اس پوزیشن میں آئے تو انہوں نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ وہ رن وے کو دیکھ سکتے ہیں۔اس اعلان کے بعد اصولی طور پر جہاز کو تھوڑا سا دائیں مڑ کر رن وے کے برابر پہنچنا چاہیے اور اس کے بعد بائیں ہاتھ گھوم کر چالیس سیکنڈ سے ایک منٹ کے اندر رن وے کو چھو لینا چاہیے۔بارش کے باعث کنٹرول ٹاور کو جہاز دکھائی نہیں دے رہا تھا۔لیکن ریڈار نے محسوس کیا کہ جہاز کی پوزیشن وہ نہیں جو لینڈنگ سے عین پہلے ہونی چاہیے۔ریڈار آپریٹر چونکہ پائلٹ کی فرکوینسی پر نہیں تھا لہذٰا اس نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ جہاز کی پوزیشن درست نہیں ہے۔کنٹرول ٹاور نے جہاز کو بتایا کہ آپ کی پوزیشن ٹھیک نہیں لگ رہی۔ پائلٹ نے جواباً کہا کہ مجھے رن وے دکھائی دے رہا ہے۔چند سیکنڈز کے بعد ریڈار نے محسوس کیا کہ جہاز ایئرپورٹ کی حدود ’کنٹرول زون باؤنڈری‘ سے باہر نکل رہا ہے جس کی حد چار سے پانچ میل ہوتی ہے۔یہ پیغام کنٹرول ٹاور کو دیا گیا جس نے فوراً جہاز سے رابطہ کیا اور کہا یہ تم کیا کر رہے ہو تمہارا رخ مارگلہ کی پہاڑیوں کی طرف ہے۔
اس وقت جہاز سے آواز آتی ہے یہ کیا ہو رہا ہےاور پھر پائلٹ کہتا ہےاوہ مائی گاڈ‘ اس کے ساتھ ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جہاز کا گئیر تبدیل کر کے اسے اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن شاید اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
اس گفتگو کا تجزیہ کرنے والے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پائلٹ نے اسلام آباد ہائی وے کو شاید رن وے سمجھ لیا تھا۔جہاز کی پوزیشن اور پائلٹ کا دو بار اصرار کہ اسے رن وے نظر آ رہا ہے اس دلیل کے حق میں جاتی ہیں۔
نو بج کر 41 منٹ پر ایئر بلیو کی پرواز 202 مارگلہ سے جا ٹکرائی۔ عملے اور مسافروں میں سے کوئی زندہ نہیں بچا۔وادی میں جگہ جگہ جہاز کے ٹکڑے جلتے رہے اور بعض جگہوں پر جھاڑیوں کو بھی آگ لگ گئی۔ اس کے بعد سے اگلے کئی دن تک اس وادی میں جہاز کے ملبے کے ٹکڑے، مسافروں کا سامان، سوٹ کیسوں سے گرنے والے کپڑے اور دوسری چیزیں بکھری ہوئی ملیں۔
فضائی کمپنی نے حادثے کے مقام سے تھوڑی دور اسلام آباد کی دامنِ کوہ سڑک پر ایک یادگار بنا دی ہے، جس میں حادثے کا شکار 110 مردوں، 29 خواتین اور 7 بچوں کے نام درج ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos