انڈیا میں خارجہ اُمور کی پارلیمانی کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کو بنگلہ دیش میں چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کی وجہ سے 1971 کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش میں سے بڑے سٹریٹجک بحران کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر انڈیا نے بروقت اپنی پالیسی کی سمت کو درست نہ کیا تو یہ بنگلہ دیش میں غیر متعلقہ ہو جائے گا۔
ننانوے صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ اگست 2024 کے بعد انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ رپورٹ انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما ششتی تھرور نے لکھی ہے۔
اگست 2024 وہ مہینہ تھا، جب بنگلہ دیش میں زبردست عوامی بغاوت کے بعد ملک کی اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ملک چھوڑ کر انڈیا میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ وہ تب سے وہاں مقیم ہیں اور ملک میں محمد یونس کی قیادت میں ایک عبوری حکومت کام کر رہی ہے۔
رپورٹ تیار کرنے کے لیے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور کی قیادت میں کمیٹی نے وزارتِ خارجہ کے نمائندوں سے بات چیت کی اور چار ماہرین سے بھی رائے لی۔
ان ماہرین میں قومی سلامتی کے سابق مشیر شیوشنکر مینن، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل سید عطا حسنین، وزارت خارجہ کی سابق سکریٹری ریوا گنگولی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈین اور پروفیسر ڈاکٹر امیتابھ مٹو شامل تھے
بنگلہ دیش میں بدلتے ہوئے حالات کی وضاحت کرتے ہوئے، ان میں سے ایک ماہرین نے رپورٹ میں کہا کہ ’1971 کی جنگ آزادی کے بعد پہلی بار انڈیا کو بنگلہ دیش سے متعلق اتنے بڑے سٹریٹجک چیلنج کا سامنا ہے۔ 1971 میں انڈیا کو درپیش چیلنج واضح تھا…انسانی بحران، اس میں انڈیا کا براہ راست کردار اور ایک نئے ملک کا قیام، لیکن آج کے چیلنجز بہت مختلف ہیں۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش ایک نئی نسل کے عروج، بدلتے ہوئے سیاسی توازن اور انڈیا سے بتدریج دور ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ عوامی لیگ کے دیرینہ اثر و رسوخ کے خاتمے کے بعد، قوم پرستی عروج پر ہے، اسلامی تنظیموں نے واپسی کی ہے، اور چین اور پاکستان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب حالات کو ایک نئے موڑ پر لے آئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی نوجوان نسل ملک کے قیام میں انڈیا کے تعاون کو پچھلی نسلوں کی طرح نہیں دیکھتی۔ بہت سے لوگ بنگلہ دیش کے قیام میں انڈیا کے کردار کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos