غیرت کے نام پر قتل میں پولیس کے سامنے اعترافی بیان کے لیے قانون سازی کی تجویز

لاہورہائیکورٹ نے غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں پولیس کے سامنے اعترافی بیانات پرقانون سازی کی تجویزدی ہے۔ جسٹس امجدرفیق نے ایک ایسے ہی مقدمے میں ملزم کی اپیل منظور کرتے ہوئے ملزم کی عمر قید کو کالعدم قراردیا ۔ اس فیصلے میں عدالت نےکہاہے کہ قانون میں پولیس کے سامنے اعترافی بیان کو بطور شہادت تسلیم نہیں کیا جاتا۔ فوجداری نظامِ انصاف کے مختلف اجزاء کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے،انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 21-ایچ واحد قانونی شق ہے جو پولیس انٹرویو یا ملزم کے اعترافی بیان کو قانونی حیثیت دیتی ہے۔ملزم کا پولیس انٹرویو ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ہونا چاہیے، اگر ملزم جرم کا اعتراف نہ کرے تو پولیس مجسٹریٹ کی موجودگی میں اس سے شواہد حاصل کر سکتی ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کا الزام ثابت کرنے میں پراسیکیوشن کی ناکامی کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، سزائیں نہ ہونے پر خواتین عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ ایسے جرائم میں ملوث افراد کو حوصلہ ملتا ہے،ملزم کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے سول کارروائی بھی ایک مؤثر ذریعہ ہے، اصولی طور پر فوجداری مقدمے کے بعد بھی سول کارروائی ممنوع نہیں ہوتی۔عدالت نے غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں پولیس کے سامنے دیے گئے اعترافی بیانات کو قابل قبول بنانے کے لیے قانون سازی کی تجویز دے دی۔

جسٹس امجد رفیق نےملزم ایاز عادل کی اپیل پر 42 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن کے مطابق مقتولہ کی لاش چارپائی پر پڑی تھی تاہم برآمدگی کے دوران چارپائی قبضے میں نہیں لی گئی، ملزم سے آلہ قتل بھی موقع سے برآمد نہ ہو سکا ،اگرچہ لاش جائے وقوعہ سے برآمد ہوئی، تاہم پراسیکیوشن یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ قتل واقعی اسی مقام پر ہوا ، یہ امر پراسیکیوشن کے مقدمے میں پہلا بڑا شگاف قرار پاتا ہے۔ ہائیکورٹ نے غیرت کے نام پر بہن کے مبینہ قتل میں ملوث بھائی کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دے دی۔واضح رہے کہ ایاز عادل پر گھر کے دیگر افراد سے مل کر بہن کو قتل کرنے کا الزام تھا

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔