یوکرین،روس جنگ پر ٹرمپ اور زیلنسکی میں3 گھنٹے سے زائدوقت کی ملاقات بے نتیجہ

امریکی صدرٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی میں تین گھنٹے سے زائد کی بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین جنگ رکوانے کے لیے امن مذاکرات پر اعتماد کا اظہار کیالیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ بات چیت انتہائی پیچیدہ ہے اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کے بعد، ان کے حل ہونے کے لیے کوئی ٹھوس ٹائم لائن فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

ٹرمپ نے کہاکہ ان کے ذہن میں یوکرائن کی جنگ کو ختم کرنے کی کوئی ڈیڈ لائن موجود نہیں ، لیکن وہ یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ آخرکار تنازع کو ختم کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پام بیچ کا سفر نہیں کیا۔ لیکن زیلنسکی کے ساتھ بات چیت شروع ہونے سے پہلے ٹرمپ نے روسی صدرسے فون پر ایک گھنٹے سے زیادہ بات کی۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کے بعد پوٹن سے دوبارہ بات کریں گے۔

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق پام بیچ، فلوریڈامیں تین گھنٹے سے زیادہ کی بات چیت کے بعد، نہ تو یوکرین کے صدر اور نہ ان کے امریکی ہم منصب نے تنازع کو ختم کرنے کی کوششوں میں کسی بڑی پیش رفت کا اعلان کیا۔ دونوں نے زور دیا کہ یہ عمل پیچیدہ ہے اور اس میں مزید وقت لگے گا۔پھر بھی کچھ پچھلی ملاقاتوں کے برعکس، ٹرمپ نے یوکرین کے صدرکی تعریف کی اور کہا کہ امن قریب ہے۔

کسی بھی معاہدے کو روسی صدر ولادیمیر پوتن سے رضامندی کی ضرورت ہوگی، جنہوں نے ٹرمپ سے فون پر بات کی اور توقع ہے کہ وہ ان کے ساتھ ایک اور کال کریں گے۔ زیلنسکی نے کہا کہ امریکہ اور یوکرین کی ٹیمیں امن منصوبے کے باقی نکات کو حتمی شکل دینے کے لیے اگلے ہفتے کے اوائل میں دوبارہ مل سکتی ہیں۔

برطانوی میڈیاکا کہناہے کہ دونوں صدور نے کہا کہ فلوریڈا میں ہونے والی بات چیت کے دوران یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے پیش رفت ہوئی ہے لیکن امریکی صدر نے تسلیم کیا کہ علاقے کا مسئلہ حل نہیں ہواالبتہ دونوں نے بات چیت کو زبردست قرار دیا، ٹرمپ نے کہا کہ ایک یا دو انتہائی کانٹے دار مسائل باقی ہیں – خاص طور پر زمین کے معاملے پر۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، زیلنسکی نے کہا کہ وہ 20 نکاتی امن منصوبے کے90 فی صدپر متفق ہوگئے ہیں۔انہوں نےیہی تناسب دہرایالیکن ٹرمپ نے کہا کہ وہ فیصد کا استعمال پسند نہیں کرتے۔ اہم نکات میں Zaporizhzhia جوہری پلانٹ کی قسمت کا فیصلہ اور زمین کا معاملہ شامل ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ مشرقی یوکرین میں ڈونباس کے علاقے کو، جس پر روس کا زیادہ تر کنٹرول ہے، غیر فوجی زون میں تبدیل کرنے کی تجویز پرابھی تک اتفاق نہیں۔انہوں نے میٹنگ کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس میں سے کچھ زمین لے لی گئی ہے۔ کچھ مزیدزمین لی جاسکتی ہے، لیکن اس میں چند مہینے لگ جائیں گے۔

ماسکو اس وقت ڈونیٹسک کے تقریباً 75 فیصد علاقے اور لوہانسک کے تقریباً 99 فیصد پر کنٹرول رکھتا ہے۔ ان علاقوں کو اجتماعی طور پر ڈونباس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فروری 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد ماسکو اس وقت یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قابض ہے۔روس چاہتا ہے کہ یوکرین ڈونباس کا وہ چھوٹاساحصہ بھی چھوڑدے جس پر اس کا کنٹرول میں ہے، کیف نے اصرار کیا ہے کہ یہ علاقہ یوکرائنی افواج کے زیر انتظام آزاد اقتصادی زون بن سکتا ہے۔

زیلنسکی نے کہا کہ اس بات پر اتفاق ہواہے کہ کہ ٹرمپ جنوری میں واشنگٹن میں یوکرائنی اور یورپی رہنماؤں کے اجلاس کی میزبانی کریں گے۔ہم نے امن کے فریم ورک کے تمام پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا اور اہم نتائج حاصل کئے۔ ہم نے مزید کارروائیوں کے سلسلے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔یوکرائنی رہنما نے کہا کہ دونوںنے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دیرپا امن کے حصول کے لیے سلامتی کی ضمانتیں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین کے لیے سیکیورٹی کی ضمانت یقینی ہو چکی ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔