امت رپورٹ
ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے ماضی کے گڑھ لیاقت آباد میں بھی شکست نظر آنے لگی۔ اردو بولنے والوں کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل اس علاقے کے مکینوں نے خالد مقبول صدیقی اور دیگر رہنماؤں پر انڈے اور ٹماٹر برسا کر باور کرا دیا ہے کہ 32 سال تک یرغمال رہنے والے علاقہ مکین اب مرضی سے اپنے امیدوار کا انتخاب کریں گے، جو ان کے مسائل حل کرے۔ لیاقت آباد کے مکینوں کا کہنا ہے کہ متحدہ پاکستان کی قیادت کے پاس پانی کے بحران، صفائی کے فقدان اور دیگر اہم عوامی مسائل حل نہ ہونے کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات کا جواب نہیں ہے۔ عوام اب ان کا یہ گھسا پٹا موقف ماننے کیلئے تیار نہیں کہ صوبائی حکومت نے انہیں اختیارات نہیں دیئے۔ درجنوں علاقہ مکینوں کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا متحدہ کے پاس ووٹ کی پرچی پر خود ہی ٹھپے لگانے کا اختیار نہیں تھا؟ کیا انہیں فطرہ، زکواۃ یا چندے کے نام پر منہ مانگا بھتہ وصول کرنے کا اختیار نہیں تھا؟ کیا انہیں یہ اختیار نہیں تھا کہ جس کو چاہیں ’’قائد کا غدار‘‘ کہہ کر موت کے گھاٹ اتار دیں؟ کیا انہیں یہ اختیار نہیں تھا کہ پولیس سمیت دیگر سرکاری اداروں میں ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کو بھرتی کرا سکیں اور ان کی ڈیوٹی معاف کرا کے یہ انتظام بھی کرائیں کہ وہ گھر بیٹھے تنخواہ وصول کریں؟ کیا ان کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ ٹوٹی چپل پہن کر ادھار کا گٹکا کھانے والے راتوں رات چائنا کٹنگ کر کے کروڑ پتی بن گئے؟ لیاقت آباد کے ناراض و مشتعل عوام کے مطابق متحدہ کے پاس ہر طرح کا اختیار تھا، صرف غریبوں کیلئے دل میں درد نہیں تھا اور نہ ہی اب ہے۔
ادھر ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اس حوالے سے پریشان ہیں کہ ماضی میں ان کے ہمدرد رہنے والے لوگ دیگر جماعتوں کی کارنر میٹنگز اور ریلیوں میں نظر آرہے ہیں۔ اب دھونس دھمکی سے ووٹ ڈلوانے یا پولنگ اسٹیشن پر ٹھپے لگا کر جیتنے کے دن گزر گئے۔ اب ہار سامنے دیکھ کر طرح طرح کے جواز گھڑے جا رہے ہیں کہ نگران حکومت ان کو کھل کر انتخابی عمل نہیں کرنے دے رہی ہے۔ ان کے دفاتر مسمار کیے جا رہے ہیں۔ کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ یہی صورتحال رہی تو بائیکاٹ پر غور کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ کراچی کی سیاسی تاریخ میں تحریک لیبک پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی نے جہاں پہلی مرتبہ انٹری کی ہے، وہیں ایم ایم اے، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ کو کھل کر انتخاب میں حصہ لینے کا چانس مل چکا ہے۔ متحدہ پاکستان آخری وقتوں میں خاصی پریشان ہونے لگی ہے کہ لیاقت آباد میں قومی و صوبائی امیدواروں کے ساتھ علاقہ مکینوں نے جو سلوک کیا ہے اس کو دیکھ کر اب دیگر متحدہ کے زیر اثر علاقوں میں بھی ایسے واقعات جنم لیں گے۔ لیاقت آباد کے قومی اسمبلی کے حلقے کے امیدوار کے طور پر متحدہ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور صوبائی حلقے میں کنور نوید جمیل کھڑے ہوئے ہیں۔ دو روز قبل لیاقت آباد کی عوام ان کے خلاف پھٹ پڑی اور کارنر میٹنگ کے دوران انڈے ٹماٹروں کی بارش کرکے ان کو باور کرا دیا کہ ان کا موڈ اب کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاک سرزمین پارٹی، مشرف لیگ، مہاجر قومی موومنٹ سمیت دیگر پارٹیوں نے لیاقت آباد کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح بہادرآباد اور پی آئی بی گروپس نے الگ الگ جلسے کئے۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے ٹنکی گراؤنڈ میں بڑا جلسہ کیا تو ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں گروپوں نے عارضی طور پر مل کر مشترکہ جلسہ ٹینکی گراؤنڈ میں کیا۔ تاہم معاملات حل نہیں ہو سکے ہیں۔ متحدہ پاکستان کو خطرہ ہے کہ اپنے گڑھ لیاقت آباد سے ووٹ کے بجائے جوتے پڑے تو پورے شہر میں اپنے زیر اثر علاقوں سے ماضی میں لینے والی نشستیں کھو دیں گے۔ لیاقت آباد میں این اے 255 کا حلقہ پہلے این اے 247 تھا۔ اسی حلقے میں دو صوبائی نشستیں پی ایس 127، پی ایس 128 آتی ہیں۔ اس قومی اسمبلی کے حلقے میں لیاقت آباد، فردوس کالونی، خاموش کالونی، حاجی مرید گوٹھ، سی ون ایریا، موسیٰ کالونی، مجاہد کالونی، ایف سی ایریا، عباسی شہید اسپتال ایریا جہانگیر آباد، کچھی گراؤنڈ، حسن کالونی ناظم آباد نمبر 2، گلبہار کا کچھ حصہ لگتا ہے۔ یہ سارے علاقے اردو بولنے والوں کے ہیں۔ ماضی میں متحدہ یہاں سے ریکارڈ ووٹ لیتی رہی ہے۔ 2002ء میں متحدہ کا اسرار العباد۔ 2008ء میں متحدہ کا ڈاکٹر ندیم احسان، 2013ء میں متحدہ کا سفیان یوسف جیتا تھا۔ اس حلقے کی آبادی 733427 ہے۔ ووٹر کی تعداد 460110 ہے جن میں مرد ووٹرز 255753 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 243057 ہے۔ اس حلقے میں پولنگ اسٹیشن 273 بنائے گئے ہیں اور پولنگ بوتھ 1066 بنائے گئے ہیں۔ 2013ء میں متحدہ امیدوار پرانے قومی اسمبلی سفیان یوسف کو 126263 ووٹ ملے تھے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے راشد کو 35349 ووٹ ملے تھے۔ اس طرح 2013ء میں دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی تھی۔ اب لیاقت آباد میں پاک سرزمین پارٹی نے پنجے گاڑ دیئے ہیں اور تحریک لبیک پاکستان بھی جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔ متحدہ پاکستان نے اس قومی اسمبلی کے حلقے میں آنے والے صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پر اپنے پرانے رہنما بطور امیدوار کھڑے کیے ہیں ان میں پی ایس 127 پر کنور نوید جمیل پی ایس 128 پر عباسی جعفری کو کھڑا کیا ہے۔
دوسری جانب علاقے کے عوام متحدہ پاکستان پر مشتعل ہیں۔ ایک علاقہ مکین عمران کا کہنا تھا کہ ووٹ اب تحریک لبیک کو دیں گے۔ محمد اصغر کا کہنا تھا کہ گھروں کے آگے کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ واحد شاہ کا کہنا تھا کہ ہم چابی والے کھلونے نہیں ہیں کہ چلو فلاں جگہ پروگرام ہے، ہاتھ پکڑا اور لے گئے۔ اب اپنی مرضی سے ووٹ دیں گے۔ محمد عقیل کا کہنا تھا کہ ووٹ مرضی کا ہوگا اور اس بار متحدہ پاکستان کا نہیں ہوگا۔ محمد اشفاق کا کہنا تھا جب متحدہ والے آتے ہیں۔ تو وہ سوال کرتے ہیں کہ تم نے عوام کو کیا دیا ہے۔ علی شیر کا کہنا تھا کہ اب مرضی سے ووٹ دیں گے۔ نصیب خان کا کہنا تھا کہ اب ہم متحدہ والوں کو علاقے سے بھگا رہے ہیں۔ رفیق کا کہنا تھا کہ جو امیدوار کام کرانے کی یقین دہائی کرائے گا اس کو ووٹ دیں گے۔ نصیب گل کا کہنا تھا کہ ’’شیر‘‘ کو ووٹ دیں گے۔