پی ٹی آئی نے ہری پور کی سیاست کو ایوب خاندان تک محدود کر دیا۔ تحریک انصاف کی جانب سے نظریاتی امیدوار عامر زمان کو نظر انداز کر کے حال ہی میں پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ عمر ایوب قبل ازیں نواز لیگ میں تھے۔ این اے 17 میں اس بار بھی تحریک انصاف اور نواز لیگ کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔ گزشتہ الیکشن میں شیر کے نشان پر بابر نواز خان چند ہزار ووٹ سے جیتے تھے، جو اب بھی ن لیگ کے پلیٹ فارم سے انتخاب میں شریک ہیں۔
ہری پور این اے 17 میں تحریک انصاف نے ایک خاندان میں قومی اور دو صوبائی کے ٹکٹ جاری کر کے اپنا ووٹ بینک متاثر کر دیا ہے۔ 60 برس سے سیاست اور اقتدار میں رہنے والے ایوب خاندان کو مسلم لیگ ن کے بابر نواز خان سے چیلنج درپیش ہے۔ ہری پور میں یونیورسٹی اور کالجز کا جال بچھانے والے ن لیگ کے صوبائی نمائندہ قاضی محمد اسد کی الیکشن مہم اساتذہ چلا رہے ہیں۔ حلقہ دور دراز گاؤں اور دیہاتوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے پانی و صحت کی سہولیات سے محروم ہے۔ ہری پور اسلام آبادکے شمال میں 65کلو میڑ دوری پر واقع ہے۔ ہر ی پور شہر کے اطراف میں لگ بھگ 400 سے زائد گاؤں آباد ہیں۔ اس شہر میں زیادہ ہندکو بولی جاتی ہے، جبکہ پختون بھی یہاں آباد ہیں۔ اس شہر میں زیادہ تر اعوان، تنولی، پنی، ترین، راجگان اور جدون آباد ہیں۔ جبکہ اس کی کل آبادی 8 لاکھ 40 ہزار سے زائد ہے۔ اس شہر کی بنیاد1821 میں سکھ جنرل ہری سنگھ نلوہ نے فوجی نقطہ نظر سے رکھی تھی، اسی مناسبت سے اس کا نام ہری پور رکھا گیا ہے۔ یہاں پر تین بڑے ڈیم ہیں، جن میں 2200 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا مٹی سے بنا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم شامل ہے۔ دوسرا خانپور ڈیم اور تیسرا بھٹڑی ڈیم ہے۔ 1725 مربع کلو میٹر کے اس شہر کی کل آبادی 10 لاکھ 30 ہزار کے لگ بھگ ہے، جس میں 5 لاکھ 31 ہزار 865 سے زائد ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ یہاں پر ووٹ کاسٹ ہونے کا تناسب 55 اشاریہ 55 فیصد ہے۔2013 میں این اے 19 (جو اب این اے 17 ہے) سے پی ٹی آئی کے راجہ ڈاکٹر عامر زمان اور ن لیگ کے عمر ایوب خان کے درمیان سخت مقابلہ ہوا تھا، جس میں ڈاکٹر عامر زمان نے ایک لاکھ 16 ہزار 979 ووٹ جبکہ عمر ایوب خان نے ایک لاکھ 14ہزار 807 ووٹ حاصل کئے تھے۔ تاہم نتائج کیخلاف عمر ایوب نے کیس کردیا تھا، جس کے بعد حلقے میں 16 اگست 2015کو دوبارہ انتخابات ہوئے۔ ری الیشکن میں مسلم لیگ ن نے بابر نواز خان اور پی ٹی آئی نے راجا عامر زمان کو ٹکٹ جاری کیا تھا، جس میں بابر نواز خان نے ایک لاکھ 37 ہزار 227 ووٹ سے کامیابی حاصل کی۔ جبکہ عامر زمان 90 ہزار 702 ووٹ حاصل کر سکے۔ اس سے قبل 2008 میں اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سردار محمد مشتاق خان نے98 ہزار 670 ووٹ لئے تھے، جبکہ عامر زمان نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے 71 ہزار 275 ووٹ لئے تھے۔
اب ہری پور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 17 پر پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار بابر نواز خان، پاکستان تحریک انصاف کے عمر ایوب خان ،پاکستان پیپلز پارٹی کی شائستہ ناز ،متحدہ مجلس عمل کے فاروق شاہ ،تحریک لبیک کے محمد زبیر تنولی ،پاکستان فلاح پارٹی کے قاضی عتیق الرحمٰن اللہ اکبر تحریک کے ملک شکیل احمد، تحریک جوانان کے محمد فیاض ، مسلم لیگ (ق)کے سید حامد شاہ، اے این پی ارم فاطمہ سمیت دیگر آزاد امیدوار بھی انتخابی عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔ جن میں مسلم لیگ ن کے بابر نواز خان اور تحریک انصاف کے عمر ایوب خان کے مابین سخت مقابلہ ہو گا۔ بابر نواز خان کی تعلیمی قابلیت بی اے ہے اور وہ کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈھائی سال قومی اسمبلی میں حلقہ کی نمائندگی کی ہے، جس کے دوران حلقے میں لگ بھگ ساڑھے 15 ارب روپے کا گیس کا میگا پروجیکٹ لایا گیا۔ پی ٹی آئی نے ڈاکٹر عامر زمان کی 7 سالہ خدمات کو بھلا کر ایوب خاندان میں 3 ٹکٹ جاری کردیئے۔ جس سے دلبرداشتہ ہوکر عامر زمان نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ن لیگ کے امیدوار بابر نواز خان کے حق میں الیکشن مہم شروع کردی ہے۔ جس کی وجہ سے بابر نواز خان کا بلہ سابق صدر پاکستان ایوب خان کے پوتے اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان کے بیٹے سابق وفاقی وزیر عمر ایوب خان سے بھاری معلوم ہوتا ہے۔
دوسری جانب ہری پور میں صوبائی کے پہلے 4 حلقے تھے، جو نئی حلقہ بندیوں کے بعد 3 حلقوں پی کے 40، 41 اور 42 میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ پی کے 40 سے مسلم لیگ ن کے قاضی محمد اسد خان، تحریک انصاف کے اکبر ایوب خان، پیپلز پارٹی کے اعجاز علی خان، ایم ایم اے حامد علی، تحریک لبیک اسلام کے راشد خان ،اللہ اکبر تحریک کے خالد خان ،مجلس وحدت المسلمین کے راضیہ جعفری، تحریک لبیک کے سید قاصد علی شاہ اور پاکستان فلاح پارٹی کے قاضی عتیق الرحمن سمیت 11 امیدوار مدمقابل ہیں۔ پی کے 41 سے تحریک انصاف کے ارشد ایوب خان،ن لیگ کے راجا فیصل زمان، پیپلز پارٹی کے راجا محمد جاوید، اے این پی کی سائزہ سید، مسلم لیگ (ق) کے عادل حمید، متحدہ مجلس عمل کی فرزانہ ریحان، تحریک لبیک کے نصر اللہ خان اور آزاد امیدوار سردار مشتاق احمد خان، عابد مختار چوہدری آمنے سامنے ہیں۔ جبکہ پی کے 42 میں پی ٹی آئی کی صائمہ خالد، مسلم لیگ ن کے قاسم علی شاہ، تحریک لبیک کے محمد وسیم، ایم ایم اے کے نسیم اختر، آزاد امیدوار ارشد خان، رضوان سعید مغل، ساجد نعیم، عبداللہ حبیب، فائزہ بی بی رشید، فیصل زمان جہازاں والا، گوہر نواز خان، ملک طاہر اقبال اور ملک عدیل اقبال کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ پی کے 40 میں اصل مقابلہ ن لیگ کے قاضی محمد اسد خان اور پی ٹی آئی کے اکبر ایوب خان کے مابین ہو گا۔ قاضی محمد اسد کو ووٹ ان کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر ملے گاقاضی محمد اسد خان جن کی اپنی تعلیمی قابلیت ایم ایس سی اکنامکس اینڈ فنانس ہے، نے ہری پور یونیورسٹی اور 3گرلز کالجز کے قیام کے علاوہ گرلز و بوائز کالجز کو پوسٹ گریجویٹ کیا۔ اسی طرح پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ، درجنوں پرائمری اسکولوں کو مڈل، مڈل اسکولوں کو سکینڈری اور سکینڈری اسکولوں کو ہائر سکینڈری اسکولوں کا درجہ دلوایا ہے، جبکہ ایک لائبریری کے علاوہ بی ایس پروگرام بھی قاضی اسد لائے، جس کی بدولت پڑے لکھے نوجوان ان کے سپورٹر ہیں۔ ان کے حریف اکبر ایوب خان کی تعلیم میٹرک ہے، جبکہ انہوں نے 5 سالوں میں روڈ اور پل کے علاوہ ماڈل پبلک اسکول میر پور اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی تعمیر کرائی۔
پی کے 41 سے اصل مقابلہ ن لیگ کے راجا فیصل زمان اور ارشد ایوب خان کے مابین ہو گا۔ راجا فیصل زمان ہری پور کے سینئر سیاست دان ہیں، ان کی تعلیم ایم بی اے ہے۔ راجا فیصل زمان نے ہری پور میں گورنمنٹ ہائی اسکول گھمانواں، چھجیاں اور بھگڑا کو از سر نو تعمیر کرانے کے علاوہ خان پور آر ایچ سی بھی بنایا۔ مختلف گاؤں میں واٹر اسکیم کے علاوہ پی کے 41 میں روڈ بھی بنوائے۔ جبکہ اس کے مدمقابل پی ٹی آئی کے ارشد ایوب خان جن کی تعلیمی قابلیت بی ایس سی ایڈمنسٹریشن ہے اور وہ پیشے کے لحاظ سے بزنس اور لینڈ لارڈ ہیں، پہلی بار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقے میں تیسرے مضبوط امیدوار سردار مشتاق خان ہیں۔ پی کے 42 سے اصل مقابلہ گوہر نواز خان اور فیصل زمان جہازوں والا کے مابین ہو گا۔ گوہر نواز خان گزشتہ الیکشن میں پی کے 51 سے ایم پی اے رہے ہیں، جن کی تعلیمی قابلیت ایم اے ہے۔ کھلابٹ سمیت دیگر آبادیوں میں بھاری ووٹ بینک رکھنے والے گوہر نواز کے مقابلے میں سابق ایم پی اے فیصل زمان جہازاں والا ہیں، جن کا تحصیل غازی تربیلا میں بڑا ووٹ بینک ہے، جس کی وجہ سے دونوں امیدواروں کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
Prev Post
Next Post