این اے 60 سے حنیف عباسی کی نااہلی کے بعد پیپلز پارٹی کے امیدوار نے نواز لیگ سے امیدیں لگالی ہیں۔ اگر راولپنڈی کے اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) نے اپنا کوئی دوسرا امیدوار کھڑا نہیں کیا، جس کا قومی امکان ہے تو نون لیگ پی پی کے مختار عباس کی حمایت کرے گی، تاکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، جن کی پی ٹی آئی بھی حمایت کر رہی ہے، کو ناکام کیا جائے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے حنیف عباسی کی نااہلی کے بعد راولپنڈی کے حلقے این اے ساٹھ کا الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف حلقہ این اے 60 کے دیگر امیدواروں نے الیکشن کمیشن میں جانے کا اعلان کیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ قانون کے مطابق صرف کسی امیدوار کی موت کی صورت میں الیکشن ملتوی ہو سکتا ہے۔ ایک امیدوار کی نااہلی کی صورت میں الیکشن کے التوا کا کوئی قانونی جواز نہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق راولپنڈی کے این اے 60 سے لیگی امیدوار حنیف عباسی کی نااہلی کے بعد فوراً بعد ہی نواز لیگ اور پی پی کے درمیان روابط ہو گئے تھے اور پی پی کے امیدوار مختار عباس نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ کل (یعنی آج) نواز لیگ کی مقامی قیادت ان کی حمایت کا اعلان ایک باقاعدہ پریس کانفرنس میں کرے گی اور پیر کو ہی راولپنڈی میں ہونے والے جلسے میں شہباز شریف بھی ان کی حمایت کا اعلان کریں گے۔ جبکہ مختار عباس سے بات چیت کے کچھ دیر بعد ہی الیکشن کمیشن کا نیا فیصلہ بھی آگیا، جس کو مختار عباس اور آزاد امیدوار ڈاکٹر محمد اسلم اظہر نے بھی ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ ذرائع کے مطابق شیخ رشید احمد بھی الیکشن ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کیلئے اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف اور قانونی ماہرین کے مشاورت کررہے ہیں اور امکان ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکٹائیں گے۔ الیکشن کمیشن نے التوا کا جواز یہ بتایا ہے کہ حنیف عباسی کے نام بیلٹ پیپر پر چھپ چکا ہے۔ اب وقت بہت کم ہے اور ان کے نام کے بغیر نئے بیلٹ پیپر چھپوانا مشکل ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک اہم عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کسی شخص کی نااہلی پر کسی انتخابی حلقے میں الیکشن ملتوی کرنے کی نہ قانون میں گنجائش ہے اور نہ ہی اس طرح کی کوئی مثال موجود ہے۔ قانون کے مطابق صرف کسی امیدوار کی موت کی صورت میں الیکشن ملتوی کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو امیدوار انتقال کر گیا ہے، چونکہ اب اس کے ووٹرز کے پاس اپنا امیدوار نہیں، اس لئے انہیں موقع دینا چاہئے کہ ان کا نیا امیدوار سامنے آئے اور وہ اسے ووٹ دے سکیں۔ حنیف عباسی کی نااہلی کی صورت میں ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی ہے اور انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ نواز لیگ کے ووٹرز کو اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دینے کا حق دیا جائے۔ اس معتبر اندرونی ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے رولز میں متبادل یا کورنگ امیدوار کا کوئی قانون نہیں ہے۔ یہ امیدوار اور پارٹیاں اپنے طور پر کرتی ہیں۔ اس ذریعے کے مطابق الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر دوبارہ چھپوانے کیلئے وقت کی کمی کا جو جواز پیش کیا ہے، وہ درست نہیں۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے یا لیول پلیئنگ (Level Playing) کیلئے حنیف عباسی کی جماعت کو بھی اپنا امیدوار لانے کا موقع ملنا چاہئے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اگر الیکشن کے التوا کو چیلنج کیا جاتا ہے تو عدالت سے جو بھی فیصلہ آیا اس پر عمل ہوگا۔
این اے 60 راولپنڈی سے حنیف عباسی کی نااہلی کے بعد میدان میں سات امیدوار رہ گئے ہیں۔ جن میں عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد، پیپلز پارٹی کے مختار عباس، تحریک لبیک کے عطاء الرحمان، پاکستان فلاح پارٹی کے راشد شاہ گردیزی اور تین آزاد امیدوار ڈاکٹر اظہر اسلم، جمیل جابر اور قیصر میر داد خان شامل ہیں۔ ایم ایم اے کے امیدوار سمیت بارہ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما اس حلقے سے امیدوار بننے کے خواہش مند تھے۔ لیکن شہباز شریف سے قربت کے باعث حنیف عباسی نے کسی کی نہیں چلنے دی اور ڈاکٹر جمال ناصر، میئر راولپنڈی سردار محمد نسیم کے بیٹے گوہر نسیم اور انجمن تاجران پاکستان کے مرکزی رہنما شاہد غفور پراچہ جیسے نواز لیگ کے اہم رہنماؤں نے اس حلقے میں کاغذات نامزدگی ہی جمع نہیں کرائے۔ ذرائع کے مطابق اگر عدالت الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج ہونے کی صورت میں این اے ساٹھ میں الیکشن 25 جولائی کو ہی کرانے کا حکم دیتی ہے تو نواز لیگ کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں کہ وہ خیر سگالی کے جذبے تحت پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کا یکطرفہ اعلان کردے۔ پی پی ذرائع کے مطابق اس حوالے سے نون لیگ اور پی پی میں روابط بھی ہوئے ہیں۔ جبکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودی سیناریو میں پچیس جولائی کے بعد نواز لیگ اور پی پی نے اکٹھے ہونا ہی ہے۔ اس لئے حنیف عباسی کے بعد مختار عباس کو سپورٹ کرکے نواز لیگ شیخ رشید کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ اس حلقے میں مشترکہ امیدوار آئندہ کی مشترکہ سیاسی حکمت عملی میں دونوں جماعتوں کے لئے مفید فیصلہ ثابت ہوگا۔ دیگر امیدواروں میں ڈاکٹر اظہر اسلم بھی پر امید ہیں کہ الیکشن ہونے کی صورت میں ممکنہ طور پر نواز لیگ ان کی حمایت کرے گی۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’نواز لیگ کے بعض رہنماؤں سے اس بارے میں میرا رابطہ ہے‘‘۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ برطانیہ پلٹ میڈیکل سرجن ڈاکٹر اظہر اسلم کا گو کہ یہ پہلا الیکشن ہے، لیکن بڑی جانفشانی اور محنت سے وہ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ان کا انتخابی نشان جیپ ہے، جسے بعض حلقوں میں آج کل جیت کا نشان بھی قرار دیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے اس قومی اسمبلی کے انتخابی حلقے کے نیچے صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی بھی ذرائع کے مطابق خواہش ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا جائے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں قومی اسمبلی کے حلقے سے لیگی امیدوار نہ ہونے کی صورت میں صوبائی نشست پر انہیں فائدہ ہو سکتا ہے اور انتخابی نشان شیر کے ووٹرز کو انہیں مائل کرنے میں آسانی ہوگی۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنی ساکھ بچانے کیلئے اس حلقے کا الیکشن ملتوی کیا ہے۔ نئے سرے سے بیلٹ پیپر چھپوانا مسئلہ نہیں ہے۔
Prev Post
Next Post