ایف آئی اے حکام نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو منی لانڈرنگ کے مقدمے کے پیش کردہ عبوری چالان میں مفرور ملزم قرار دیا گیا ہے اور یہ خبر جھوٹی نہیں ہے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق کچھ روز میں دونوں ملزمان کی گرفتاری کیلئے وارنٹ جاری ہوجائیں گے، جس کیلئے صرف الیکشن کی تاریخ گزرنے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ 25 جولائی کے بعد اس ایڈوینچرکا امکان ہے۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو منی لانڈرنگ کیس میں دیگر ملزمان کے ساتھ مفرور ملزمان قرار دیئے جانے کی خبر کو پیپلز پارٹی قیادت کی جانب سے من گھڑت قرار دیا جا رہا ہے اور ایسی خبروں کو میڈیا ٹرائل قرار دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے میں درج ہونے والے مقدمے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت دیگر مفرور ملزمان کی گرفتاری کیلئے وارنٹ 25 جولائی کے بعد جاری کئے جائیں گے۔ ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں مقدمہ کی تفتیش کے سلسلے میں پیش کئے گئے عارضی چالان میں مجموعی طور پر 24 نامزد ملزمان کے خلاف رپورٹ پیش کی گئی۔ رواں مہینے کے آغاز میں 29 جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی انکوائری میں ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں ایک بینک اکائونٹ کے ذریعے ساڑھے چار ارب روپے کی منتقلی کی مکمل تفصیلات سامنے آنے کے بعد منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جبکہ دیگر 28 بینک اکائونٹس کے ذریعے ہونے والی 30 ارب روپے کی منی لانڈرنگ پر مقدمات درج کرنے کے لئے انکوائری جاری ہے۔
منی لانڈرنگ کے اس مقدمے کے تفتیشی افسر اور ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر علی محمد ابڑو نے ’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ ’’شروع دن سے جب سے یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا، ایف آئی اے کی جانب سے اس مقدمہ میں نامزد ملزمان کیلئے تین قسم کی درجہ بندیاں بنائی تھیں۔ ان میں ملزمان کی ایک قسم وہ ہے جنہوں نے جعلی اکائونٹ میں رقوم جمع کرائیں جن میں مختلف کمپنیوں کے مالکان شامل ہیں۔ ملزمان کی دوسری درجہ بندی وہ ہے جنہوں نے جعلی بینک اکائونٹ کھولے، ان میں بینک افسران شامل ہیں۔ جبکہ ملزمان کی تیسری قسم وہ ہے جن کے اکائونٹس میں جعلی اکائونٹ سے رقم منتقل ہوئی اور وہ بینفشریز ہیں، اس لئے یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ملزمان کے حوالے سے ابہام کیوں پھیلایا جا رہا ہے۔ جبکہ قوانین کے تحت ہونے والی کارروائی میں کسی قسم کا کوئی سقم موجود نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس مقدمے کے اندراج کے بعد ایف آئی اے قوانین کے تحت مقدمے کی تفتیش اور عدالت میں اس مقدمے کی پیروی کا عمل شروع ہوا جس میں قوانین کے تحت ہی تینوں قسم کی درجہ بندیوں میں آنے والے ملزمان کے نام اور ان کے خلاف رپورٹ، ان کے متعلقہ کالمز کے حساب سے عبوری چالان کا حصہ بناکر عدالت میں جمع کرا دی گئی ہے۔ ان کالمز کے مطابق وہ ملزمان جنہیں ایف آئی اے حراست میں لے چکی ہے انہیں ’’ان کسٹڈی‘‘ کے کالم میں رکھا گیا ہے اور جو ملزمان ضمانت حاصل کرچکے ہیں، انہیں کالم نمبر 3 میں یعنی ’’آن بیل‘‘ میں رکھا گیا ہے جبکہ وہ ملزمان جنہیں نہ ایف آئی اے نے حراست میں لیا ہے اور نہ ہی انہوں نے ضمانت کرائی ہے، انہیں عبوری چالان میں ’’ایبس کونڈرز‘‘ یعنی مفروروں کے کالم میں شامل کیا گیا ہے جن میں آصف علی زرداری اور فریال تالپور بھی شامل ہیں۔‘‘ جب مقدمے کے تفتیشی افسر اے ڈی محمد علی ابڑو سے پوچھا گیا کہ قوانین کے تحت ایف آئی اے کے تحت مفرور قرار دئے جانے والے ملزمان کی گرفتاریوں کے حوالے سے کیا قانونی کارروائی کی جا رہی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے مقدمہ پر عبوری چالان عدالت میں جمع کرادیا ہے اور اب عدالت کی جانب سے ان ملزمان کی گرفتاریوں کے لئے وارنٹ جاری کئے جائیں گے جس کے بعد انہیں گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا۔ ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ عبوری چالان تو جمع کیا جاچکا ہے اب وارنٹ کب جاری ہوگا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کیلئے احکامات جاری کئے جاچکے ہیں کہ انہیں 25 جولائی تک کا وقت دیا جائے، جس کے بعد ظاہر ہے کہ مفرور قرار دیئے جانے والے ملزمان کی گرفتاریوں کیلئے عدالت وارنٹ جاری کرے گی۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو کا کہنا تھا کہ مقدمہ کے درج ہونے کے بعد قانون کے مطابق عباری چالان پیش کرنے سے قبل ہی مقدمے میں نامزد ملزمان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جاسکتی تھیں۔ تاہم اس دوران وہ بہت زیادہ مصروف رہے اور سپریم کورٹ میں ہونے والی پیشیوں کی وجہ سے انہیں حراست میں موجود ملزم حسین لوائی کو بھی اسلام آباد لے کر جانا اور واپس آنا پڑا۔ جبکہ ساتھ ہی انہیں دیگر 28 بینک اکائونٹس سے ہونے والی منی لانڈرنگ کی انکوائری میں بھی بینکوں سے متعلقہ ریکارڈ لینا تھا۔ تاکہ دیگر اکائونٹس سے ہونے والی منی لانڈرنگ پر مقدمہ درج کرنے کیلئے ثبوت اور شواہد جمع کئے جاسکیں، جس کی وجہ سے وہ مقدمہ میں زیادہ پیش رفت نہ دکھاسکے۔ ان کا مزیدکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس لینے سے پہلے اس معاملے پر بینکوں کی انتظامیہ بھی ریکارڈ دینے سے گریز کر رہی تھی، جس کی وجہ سے تحقیقات میں تاخیر ہو رہی تھی۔ تاہم اب یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد بینکوں سے تمام ریکارڈ مل رہا ہے۔ اس ریکارڈ کی چھان بین کا عمل انتہائی پیچیدہ اور وقت طلب ہے۔
ہفتے کے روز ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کا عبوری چالان پیش کیا گیا تھا۔ چالان میں آصف علی زرداری، فریال تال پور، انور مجید، عبدالغنی مجید، اسلم مسعود، محمد عارف خان، عدیل شاہ راشدی، نصر عبداللہ حسین، محمد اشرف، عدنان جاوید، محمد عمیر، محمد اقبال آرائیں، قاسم علی، شہزاد علی اور اعظم وزیر خان سمیت 20 ملزمان کو مفرور قرار دیا گیا ہے اور گرفتار ملزمان حسین لوائی، طہ رضا کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے گئے۔
مقدمے کے تفتیشی افسر جو منی لانڈرنگ میں استعما ل ہونے والے دیگر بینک اکائونٹس کے حوالے سے جاری تحقیقات کے انکوائری افسر بھی ہیں، کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے قوانین کے تحت انکوائری میں ثبوت اور شواہد سامنے آنے کے بعد ملوث افراد کو قانون کے مطابق ایک نوٹس بھیجا جاتا ہے جس کے بعد ایک یادہانی لیٹر یعنی ریمائنڈر ارسال کیا جاتا ہے۔ اگر ملوث افراد حاضر نہ ہوں تو ایف آئی اے قوانین کے تحت انہیں حراست میں لینے کی کارروائی کی جاتی ہے۔ ان کا مزیدکہنا تھا کہ اس انکوائری میں یہی عمل دوہرایا جائے گا، جس کے بعد آصف علی زرداری سمیت دیگر ملزمان کی گرفتاری کیلئے اعلیٰ ایف آئی اے حکام سے اجازت طلب کی جائے گی اور اجازت ملنے پر گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کی جانب سے پیش کردہ چالان میں بتایا گیا کہ تفتیش کے دوران 29 مشکوک کھاتوں میں ہونے والی ٹرانزیکشن سامنے آئی تھی۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ منی لانڈرنگ کیلئے استعمال ہونے والے 29 بینک اکائونٹس میں سے ایک کائونٹ نمبر 139111-714-20620-28-2-1 جو عبداللہ ہارون روڈ صدر میں واقع اے ون انٹرنیشنل کمپنی کے نام پر سمٹ بینک کی خیابان تنظیم برانچ میں کھولا گیا، یہ اکائونٹ کھولنے کیلئے جعل سازی کی گئی اور طارق سلطان کا شناختی کارڈ استعمال کیا گیا۔ تفتیش کے دوران طارق سلطان نے اپنے نام پر بینک اکائونٹ اور کمپنی کے قیام سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ تفتیش کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ طارق سلطان کے نام پر بینک اکائونٹ جعلی اور بوگس طریقے سے کھولا گیا جبکہ مختلف نوعیت کے دستخط بھی کئے گئے۔ تفتیش کے دوران آپریشن منیجر کرن امان اور ریلیشن منیجر نورین سلطان نے تسلیم
کیا کہ اکائونٹ جعل سازی سے کھولا گیا۔ نورین سلطان نے بتایا کہ اس وقت کے بینک منیجر عدیل شاہ راشدی نے یہ جانتے ہوئے کہ یہ اکائونٹ اومنی گروپ سے تعلق رکھتا ہے، اسے طارق سلطان کے نام پر کھولنے کی منظوری دی۔ اکائونٹ کھولنے کے وقت منیجر عدیل شاہ راشدی نے بتایا کہ انہوں نے طارق سلطان کے نام پر اکائونٹ کھولنے کی اجازت سے قبل دستاویزات تصدیق کیلئے بینک کے نائب صدر طہ رضا کو ارسال کی تھی جنہوں نے یہ کہہ کر اکائونٹ کھولنے کی اجازت دی کہ دستاویزات بینک کے چیئرمین حسین لوائی کے ریفرنس سے آئی ہیں اور تحریری اجازت نامہ ملنے کے بعد ہی اکائونٹ کھولا گیا۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ اس بینک اکائونٹ کو اومنی گروپ کا اکائونٹنٹ عارف خان چلاتا تھا اور اکائونٹ کھولنے کیلئے اومنی گروپ کے چیف فنانس افسر اسلم مسعود نے عارف خان کو دستاویزات فراہم کی تھیں۔ دونوں افسران ایگرو فارمز ٹھٹھہ کی جانب سے اکائونٹ کھولنے کے مجاز تھے۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ اس اکائونٹ سے 10 ماہ 5 مارچ 2014ء سے 12 جنوری 2015 ء کے دوران 4 ارب 58 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن کی گئی۔ اس اکائونٹ میں رقوم جمع کرانے والوں میں ایک کمپنی کی جانب سے 75 کروڑ، میسرز سجاول ایگرو فارمز پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے 5 کروڑ 5 لاکھ روپے، میسرز ٹنڈو الہیار شوگر ملزکی جانب سے23کروڑ 84 لاکھ 46 ہزار روپے، اومنی پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے 5 کروڑ، میسرز ایگرو فارمز ٹھٹھہ کی جانب سے ایک کروڑ 70 لاکھ روپے، میسرز الفا زولو کی جانب سے 2 کروڑ 25 لاکھ روپے، حاجی مرید اکبر کی جانب سے 2 کروڑ، میسرز شیر محمد مغیری کی جانب سے 5 کروڑ ، میسرز سردار اشرف ڈی بلوچ پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے 10 کروڑ، میسرز اے ون انٹر نیشنل کی جانب سے 18 کروڑ 45 لاکھ 6 ہزار 490 روپے، میسرز لکی انٹرنیشنل کی جانب سے 30 کروڑ 50 لاکھ روپے، میسرز لاجسٹک ٹریڈنگ 14 کروڑ 50 لاکھ میسرز اقبال میٹلز کی جانب سے 15 کروڑ 63 لاکھ 80 ہزار 86 روپے، میسرز رائل انٹرنیشنل کی جانب سے 18 لاکھ 50 ہزار روپے اور میسرز سمیر ایسوسی ایٹس کی جانب سے 58 کروڑ 12 لاکھ روپے جمع کرائے گئے۔ اسی اکائونٹ سے 13 کمپنیوں کو پیسے بھیجے گئے جن میں چیئرمین سمٹ بینک نصر عبداللہ لوٹا کو 2 ارب، 49 کروڑ 20 لاکھ روپے، میسرز انصاری شوگر ملز ( انور مجید اور علی کمال مجید) کو 7 کروڑ 37 لاکھ 82 ہزار، میسرز اومنی پولیمر پیکجز ( عبدالغنی مجید اور علی کمال مجید) کو 50 لاکھ، میسرز پاک ایتھونال پرائیویٹ لمیٹڈ (مصطفیٰ ذولقرنین مجید اور عبدالغنی مجید) کو ایک کروڑ 50 لاکھ روپے، میسرز چیمبر شوگر ملز ( انور مجید) کو 20 کروڑ روپے، میسرز ایگرو فارمز ٹھٹھہ ( انور مجید) کو 57 لاکھ، میسرز زرداری گروپ (آصف علی زرداری اور فریال تالپور) کو ایک کروڑ 50 لاکھ روپے، میسرز پرتھینن پرائیویٹ لمیٹڈ ( اقبال خان نوری) کو 5 لاکھ روپے، میسرز اے ون انٹر نیشنل کو 5 لاکھ 75 ہزار روپے، میسرز لکی انٹر نیشنل کو 10 کروڑ 72 لاکھ روپے، میسرز لاجسٹک ٹریدنگ کو 14 کروڑ 50 لاکھ روپے، میسرز رائل انٹر نیشنل کو 28 کروڑ 50 لاکھ روپے اور میسرز عمیر ایسوسی ایٹس کو 80 کروڑ 10 لاکھ روپے بھیجے گئے۔ مقدمے میں حسین لوائی اور طہ رضا گرفتار ہیں جبکہ آصف علی زرداری، فریال تالپور، انور مجید، عبدالغنی مجید، اسلم مسعود، محمد عارف خان، عدیل شاہ راشدی، نصر عبداللہ حسین، محمد اشرف، عدنان جاوید، محمد عمیر، محمد اقبال آرائیں، قاسم علی، شہزاد علی اور اعظم وزیر خان کو مفرور ہیں۔ عدالت نے چالان منظور کرتے ہوئے گرفتار ملزمان کے پروڈکشن آرڈر جاری کردیئے۔
ایف آئی اے کے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مجموعی طور پر 29 جعلی بینک اکائونٹس سے زرداری گروپ کے اکائونٹ میں 14 کروڑ 65 لاکھ روپے منتقل ہوئے۔ تاہم 13کروڑ روپے کی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ آئندہ درج ہونے والے منی لانڈرنگ کے مقدمات میں شامل کیا جائے گا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور سمیت کئی دیگر ملزمان کے خلاف مزید مقدمات درج ہونے ہیں، جس سے الیکشن کے بعد ان رہنمائوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی ۔ ٭
Prev Post
Next Post