لاہور میں7نشستوں پر لیگی فتح یقینی 7پر مقابلہ

0

لاہور (نمائندہ خصوصی ) مسلم لیگ نواز کے قلعہ لاہور میں قومی اسمبلی کی 14 نشستوں میں سے سات نشستیں ن لیگ آسانی سے جیت رہی ہے جبکہ باقی 7 پر سخت مقابلے کا امکان ہے پی ٹی آئی کی طرف سب سے زیادہ زور اب تک این اے 129 میں نظرآرہا ہے جہاں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے مقابلے میں علیم خان امیدوا ر ہیں این اے 131 میں سعد رفیق اپنے دیہی آبادیوں میں اثر و رسوخ اور حلقے میں کرائے گئے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے عمران کو غیر معمولی صورت حال سے دوچار کرسکتے ہیں۔ شہرلاہور کے جن دوسرے حلقوں میں مسلم لیگ نواز کے مقابل پی ٹی آئی زیادہ زور لگارہی ہے ان میں این اے 125 اور این اے 124 سہرفرست ہیں این اے 130 میں پی ٹی آئی کے امیدوار شفقت محمود کو عقیدہ ختم نبوت کے حلف میں ترمیم کے لئے مسودہ تیارکرنے میں انوشہ رحمان کے ساتھ شریک ہونے کے انکشاف کے بعد خود پی ٹی آئی کے اندر بھی مشکلات کا شکار ہے ۔ این اے 130 کے دونوں ذیلی صوبائی حلقوں میں پی ٹی آئی امیدوار میاں محمود الرشید اور ڈاکٹر مراد راس نے بھی شفقت محمود کی وجہ سے اپنے لئے پیدا ہونے والی مشکلات کا اظہار شروع کردیا۔ ”امت“ کے ذرائع نے پی ٹی آئی نے لاہور میں شروع سے جس حلقے میں بہت زور لگانے کی حکمت عملی اختیار کررکھی ہے وہ سابقہ این اے 120 اور موجودہ 125ہے تاکہ اس حلقے میں نوازشریف کے روایتی قومی انتخابی حلقے کو فتح کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس مقصد کے لئے پی ٹی آئی نے حلقے میں لاہور کا مبینہ طورپر سب سے بڑا جوا اڈہ چلانے والی اہم شخصیت کی بھی حمایت حاصل کرلی ہے ۔ این اے 127 جہاں سے شروع میں مریم نواز، نواز لیگ کیطرف سے بہت مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آرہی تھیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد نواز لیگ نے ان کی جگہ لاہور کے صدر ملک پرویز کے نوجوان بیٹے علی پرویز کو ٹکٹ دیدیا جس سے پی ٹی آئی کے جمشید اقبال چیمہ جو قبل ازیں اپنی پوزیشن کو زیادہ کمزور دیکھتے تھے اب پرامید ہوگئے ہیں۔ ذرائع نے ”امت“ کو مریم نواز کیلئے اس حلقے سے الیکشن کرانے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ورکنگ کلاس کا حلقہ ہے۔ اب مریم نواز کے الیکشن سے آؤٹ ہوجانے کے بعد پی ٹی آئی نے اس حلقے پر زیادہ زور لگانے کی حکمت عملی بنائی۔ جمشید اقبال چیمہ نے یہاں پہلے سے بھی زیادہ روپیہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ یوں پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ یہاں کانٹے کا مقابلہ کرنے کی سطح پر پہنچ جائے۔”امت“ کے ذرائع کے مطابق اگرچہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا حلقہ این اے 131 ہے لیکن پی ٹی آئی زیادہ جاندار مہم علیم خان کے حلقے این اے 129 میں ہے ۔علیم خان نے اپنی شخصیت کے بعض منفی پہلوؤں کے باوجود حلقے کی کئی پاکٹس میں اچھا خاصا اثرورسوخ اور گڈول پیدا کررکھی ہے۔ اس حلقے میں 2013 میں سردار ایاز صادق اور عمران خان آمنے سامنے تھے ۔ سردار ایاز صادق عمران سے تقریباً دو گنا ووٹ لے کر جیت گئے بعدازاں 2015 میں ضمنی انتخاب سردار ایاز صادق کے مقابلے میں عمران خان نے علیم خان کو میدان میں اتارا تو جیت پھر سردار ایازصادق کی ہوئی ۔ انہوں نے 76204 حاصل کئے جبکہ علیم خان نے 72043 ووٹ حاصل کئے ۔ یہ صورت حال پی ٹی آئی کے لئے بڑے حوصلے کا باعث بنی۔علیم خان کادھرمپورہ ، گڑھی شاہو، بستی سیدن شاہ ایسے علاقوں میں علیم خان نے رفاع عامہ کے کافی کام کرارکھے ہیں۔ این اے 131 جہاں سے مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق کے مقابل عمران خان الیکشن لڑرہے ہیں اس حلقہ کی اہم بات یہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے خود میاں نواز شریف سے درخواست کی تھی کہ اس حلقے سے اگر عمران خان سامنے آیا تو اس کا مقابلہ کرنے میں انہیں خوشی ہوگی ۔ یہ سن کر نوازشریف نے ان کے ا س حلقے سے فوری ٹکٹ کا اعلان کردیا تھا۔ سعد رفیق نے پارٹی لیڈر شپ کو حلقے مین آنے کی بھی زحمت نہیں دی ۔ اس حلقے کے حوالے سے عمومی تاثر بڑا گہرا ہے کہ ڈی ایچ اے اور کینٹ کا پڑھا لکھا ووٹر عمران خان کے ساتھ جائے گا لیکن مسلم لیگ نواز کے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ دیہی اور گنجان آبادیوں کا ووٹ بینک 70 سے 80 فیصد تک ہے ۔ نیز ڈی ایچ اے کینٹ میں رہنے والوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جن کے ووٹ کسی دوسرے قصبے آبائی علاقے یا دیہات کے لئے ہوتے ہیں ان پوش آباد یوں کے مقابلے میں بھٹہ چوک،چرڑ اور دوسرے دیہات میں سعد رفیق خود کو کمفرٹ ایبل محسوس کرتے ہیں البتہ لہرچونکہ پی ٹی آئی کے حق میں ہے اس لئیے اس کا نقصان خواجہ سعد رفیق کو ہوسکتا ہے نیز نیب کیسز کے حوالے سے عام طور کہاجا تاہے کہ خواجہ سعد رفیق نے اندرون لوہاری کے علاقے سے ڈی ایچ اے تک سفر جس تیزی سے طے کیا ہے اس وجہ سے ووٹرپلٹا کھاسکتے ہیں کہ ان کی مبینہ پیراگون سوسائٹی اور آشیانہ ہاؤسنگ میں ا ن کا مبینہ طورپر ”بینفشری “ہونا مشکلا ت پیدا کرسکتا ہے تاہم نواز لیگ کے رہنما کا یہ ماننا نہیں ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جیت سعد رفیق کی ہوگی عمران کی نہیں ۔لاہور کے حلقہ 125 میں اب کی بار بھی کانٹے دار مقابلہ ہوگا چونکہ ستمبر 2017 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں نواز لیگ اور پی ٹی آئی امیدواروں بالترتیب کلثوم نواز 61745 اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے 47099 ووٹ حاصل کئے تھے اس لئے پی ٹی آئی کے خیال میں شریف خاندان سے امیدوار نہ ہونے کی صورت مین اس لئے یہ آسان ہدف ہوسکتا ہے۔ اس حلقے میں داتا دربار کے مجاوروں کی طرف سے پی ٹی آئی کی حمایت بھی نواز لیگ کے لئے دھچکا مجاوروں شہرت بعض حوالوں سے سخت متنازعہ ہے اس مجاور خاندان پر لاہور کا سب سے بڑا جوا کرانے کا الزام بھی لگتا ہے۔ اس علاقے میں مرحوم ٹیپو ٹرکاں والد خاندان کا نواز لیگ کی حمایت سے دستبردار ہوکر پی ٹی آئی کے ساتھ جاملنا بھی اہم ہے دوسری جانب مسلم لیگ نواز کی مرکزی و مقامی قیادت میں سے کوئی بھی اس حلقے میں 22 جولائی تک نہیں آیا تھا نواز لیگ ا س حلقے مین باہمی لڑائیوں میں الجھ چکی ہے ان کے لوگ ٹوٹ رہے ہیں خواجہ عمران کا کارخاص سمجھا جانے والا ایاز بوبی بھی صوبائی سطح پر بلال یاسین کی مدد نہیں کررہا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے ذرائع کے مطابق این اے 128 جہاں شیخ روحیل اصغر اور اعجا ز ڈیال کے درمیان اور مقابلہ ہے کانٹے دار مقابلہ نظر انداز نہیں کیا جارہا کیونکہ دیہی علاقوں میں اعجاز ڈیال (پی ٹی آئی ) کااثرورسوخ کابل لحاظ ہے جبکہ شہری علاقے میں شیخ روحیل اصغر کا مقابلہ آسان نہیں ہے۔ این اے130 جہاں ماضی میں پی ٹی آئی جیتی تھی اب بھی اسے اپنے لئے اچھا حلقہ سمجھ رہی تھی لیکن پی ٹی آئی کے امیدوار شفقت محمود کا نام انوشہ رحمان کے ساتھ آنے کے بعد مسلم لیگ نواز کے امیدوار خواجہ احمد حسان پوزیشن بہتر ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ اس حلقے میں ایم ایم اے کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ بھی اہم امیدوار ہیں لیکن مقابلہ بلکہ کانٹے دار مقابلہ نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہی بتایا جارہا ہے شفقت محمود پر قادیانی جماعت کے علاوہ ووٹرز کی طرف سے الزام یہ بھی ہے کہ وہ جیت کر حلقے والوں کو بھول جاتے ہیں اس کے مقابلے میں خواجہ احمد حسان نے شکست کے بعد بھی نہ صرف حلقے میں مسلسل رابطہ رکھا بلکہ ترقیاتی کام بھی خوب کرائے۔ این اے 126 جہاں مہر اشتیاق مسلم لیگ نواز کیطرف سے اور پی ٹی آئی کے حماد اظہر اہم پہلوان ہیں اتفاق سے دونوں کا تعلق آرائیں برادری کے ساتھ ہے ۔ مہر اشتیاق بہت مقبول رہے ہیں لیکن اب ان کا مختصر وقت میں مبینہ ارب پتی بن جانا حلقے کے ووٹر کیلئے اہم بن گیا ہے ۔ پنجاب سپورٹس بورڈ میں ان کا نام بھی رانا مشہود کے ساتھ آتا رہا ہے دوسری جانب پی ٹی آئی حماد اظہر ایک تعلیم یافتہ اور امیدوارہونے کے ساتھ ساتھ میاں امجد کا فرزند ہونے کا بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ مجموعی طورپر لاہور میں نواز لیگ کی پوزیشن اب بھی اچھی ہے لیکن اس بار سخت مقابلے سے بھی گزرنا ہوگا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More