راولپنڈی میں3 دہائیوں بعد نوازلیگ کو چیلنجز کا سامنا

0

اویس احمد/ وقاص چوہدری
تین دہائیوں تک نواز لیگ کا گڑھ سمجھے جانے والے ضلع راولپنڈی میں اس مرتبہ سابق حکمران جماعت کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ ضلع کی 7 قومی اور 15 صوبائی نشستوں میں سے اکثر پر مسلم لیگ (ن) کا تحریک انصاف اور اس کے حمایت یافتہ امیدواروں سے کڑا مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔ جبکہ بعض حلقوں پر نواز لیگ کے امیدوار، آزاد امیدواروں کا سامنا کر رہے ہیں۔ راولپنڈی شہر میں قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی 6 نشستیں ہیں، جبکہ چار قومی اور 9 صوبائی نشستیں ضلع کی دیگر تحصیلوں اور مضافاتی علاقوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔ ضلع راولپنڈی میں دو سابق وزرائے اعظم سمیت کئی اہم شخصیات انتخابی دوڑ میں شریک ہیں۔ ایک جانب الیکشن لڑنے والے پرکشش وعدے کررہے ہیں تو دوسری طرف راولپنڈی میں مسائل کے انبار ہیں، جن میںپانی کی کمی، تعلیم، صحت، سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر ضلع راولپنڈی کے شہری و مضافاتی اور دیہی علاقوں کے مشترکہ مسائل ہیں۔
این اے 57 ضلع راولپنڈی تحصیل مری کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ کے علاوہ تحصیل کلر سیداں اور تحصیل راولپنڈی کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے، جہاں کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 5 لاکھ 90 ہزار 372 ہے۔ یہاں سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا مقابلہ پی ٹی آئی کے پروفیسر صداقت عباسی، پیپلز پارٹی کی مہرین انور راجہ اور تحریک لبیک کے جاوید اختر عباسی کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں سے حلقے کی دو بڑی برادریوں عباسی اور ستی سے تعلق رکھنے والے امیدوار ہی کامیاب رہتے ہیں، جن میں عباسی امیدواروں کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ تاہم حلقے میں ان دو برادریوں کے علاوہ چوہدری، دھنیال، راجپوت، کشمیری اور قریشی بھی کافی تعداد میں آباد ہیں جن کی حمایت کسی بھی امیدوار کیلئے بہت ضروری ہے۔ گزشتہ انتخابات میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہنے والے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے دونوں امیدوار اس مرتبہ پی ٹی آئی میں اکٹھے ہو چکے ہیں۔ اس حلقے سے ایک مرتبہ کامیاب رہنے والے غلام مرتضیٰ ستی اس مرتبہ پی ٹی آئی کی جانب سے صوبائی حلقے پی پی 7 سے انتخاب لڑ رہے ہیں اور حلقے کے مضبوط ترین امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ این اے 57 کے ذیلی صوبائی حلقہ پی پی 6 پر سابق سنیئر وزیر پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار راجہ اشفاق سرور کا مقابلہ پی ٹی آئی کے لطاسب ستی، ایم ایم اے کے سجاد عباسی، پیپلز پارٹی کے سجاد احمد عباسی اور تحریک لبیک کے نیر منیر کر رہے ہیں۔ تحصیل مری اور تحصیل کوٹلی ستیاں پر مشتمل اس حلقے سے راجہ اشفاق سرور اپنے سابقہ ریکارڈ کے بل پر مضبوط ترین امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ ادھر حلقہ پی پی 7 سے نواز لیگ کے ٹکٹ پر راجہ ظفر الحق کے بیٹے راجہ محمد علی مضبوط امیدوار ہیں۔ ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے امیدوار غلام مرتضیٰ ستی سے ہے جو حلقہ این اے 57 سے ایک مرتبہ قومی اسمبلی کا انتخاب جیت چکے ہیں۔ اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے چوہدری محمد ایوب، ایم ایم اے کے تنویر احمد اور تحریک لبیک کے منظور ظہور بھی میدان میں موجود ہیں۔
این اے 58 رقبے اور ووٹروں کی تعداد کے اعتبار سے ضلع راولپنڈی کا سب سے بڑا حلقہ ہے جو تحصیل گوجر خان کے علاوہ تحصیل کلر سیداں کی پانچ تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے سے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے امیدوار راجہ پرویز اشرف اور مسلم لیگ (ن) کے راجہ جاوید اخلاص کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ جبکہ گوجر خان سے سابق ٹائون ناظم ا ور تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری محمد عظیم اور تحریک لبیک کے امیدوار محمد رمضان اعوان بھی اچھی کارکردگی کے ساتھ حلقے کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ حلقے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 6 لاکھ 29 ہزار 386 ہے، جن کی اکثریت مضافاتی اور دیہی علاقوں کے ووٹروں پر مشتمل ہے۔ راجہ پرویز اشرف اس حلقے سے دو مرتبہ، جبکہ راجہ جاوید اخلاص ایک مرتبہ کامیاب ہو چکے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو ایک، ایک مرتبہ شکست دے چکے ہیں۔ این اے 58 کے ذیلی صوبائی حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے شوکت بھٹی، جو جعلی ڈگری کے باعث نااہل قرار دیے جا چکے ہیں، اپنے بھائی کو پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کے باعث اندرون خانہ راجہ جاوید اخلاص کی مخالفت اور راجہ پرویز اشرف کی حمایت کر رہے ہیں۔ راجہ جاوید اخلاص نے شوکت بھٹی پر راجہ پرویز اشرف کی حمایت کیلئے کئی کروڑ روپے لینے کا الزام بھی لگایا ہے۔ مقامی سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ 2013 ء میں راجہ جاوید اخلاص کی راجہ پرویز اشرف کے مقابلے میں کامیابی میں چوہدری محمد عظیم کا بھی ہاتھ تھا، جنہوں نے پی ٹی آئی سے ٹکٹ نہ ملنے کے باعث راجہ جاوید اخلاص کی حمایت کی تھی۔ مقامی سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ این اے 58 کا اکثر علاقہ دیہی ہونے کے باعث یہاں زیادہ تر برادری کی بنیاد پر ووٹ ڈالا جاتا ہے، تاہم 2013ء کے انتخاب کے نتائج کو دیکھا جائے تو یہاں پی ٹی آئی کا اچھا خاصا ووٹ بینک موجود ہے۔ 2013ء میں راجہ فرحت فہیم بھٹی نے اس حلقے سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر تقریباً 40 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔ گوجر خان کے صوبائی حلقہ پی پی 8 (راولپنڈی تھری) پر نواز لیگ کے چوہدری محمد ریاض اور پیپلز پارٹی کے خرم پرویز راجہ کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے، جبکہ تحریک انصاف کے چوہدری جاوید کوثر بھی مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ تحصیل گوجر خان کے دوسرے صوبائی حلقے پی پی 9 (راولپنڈی فور) پر بھی نواز لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے راجہ محمد حمید، پی ٹی آئی کے چوہدری ساجد محمود اور پیپلز پارٹی کے چوہدری سرفراز خان حلقے میں مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔
این اے 59 پر سابق وزیر داخلہ اور آزاد امیدوار چوہدری نثار علی خان، مسلم لیگ (ن) کے راجہ قمر الاسلام اور پی ٹی آئی کے غلام سرور خان کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ چوہدری نثار اس حلقے سے اپنی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر مضبوط ترین امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ تاہم انہیں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار راجہ قمر الاسلام کی شکل میں ایسے حریف کا سامنا ہے جو ذاتی ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں۔ صاف پانی اسکینڈل میں نیب کی جانب سے گرفتار کئے گئے امیدوار راجہ قمر الاسلام اس سے قبل صوبائی حلقے کے امیدوار تھے، جنہوں نے 2013ء کے انتخاب میں صوبائی نشست پر اپنے حریف کو ریکارڈ ووٹوں سے شکست دی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے نظریاتی ووٹروں کی اکثریت چوہدری نثار علی خان کی حمایت کر رہی ہے۔ جبکہ بیشتر مقامی نواز لیگی رہنمائوں نے بھی چوہدری نثار علی خان کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے، تاہم راجہ قمر الاسلام انتخاب میں ان کی کارکردگی کو متاثر کریں گے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے غلام سرور خان بھی اسی حلقے سے میدان میں ہیں اور قومی اسمبلی کے ایک اور حلقے سے گزشتہ انتخابات میں چوہدری نثار علی خان کو شکست دینے کے باعث کافی مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ این اے 59 سے یہ ان کا پہلا انتخاب ہے، تاہم حلقے میں پی ٹی آئی کا مضبوط ووٹ بینک ان کی پوزیشن کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔ پی پی 13 میں نواز لیگ، پی ٹی آئی اور ایم ایم اے کے امیدواروں کے مابین سخت مقابلے کی فضا موجود ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار ملک تیمور مسعود کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ملک عمر فاروق نے 9 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست کھائی تھی۔ مقامی سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہاں اصل مقابلہ پی ٹی آئی کے امجد محمود چوہدری، ایم ایم اے کے تاج محمد عباسی اور مسلم لیگ (ن) کے چوہدری سرفراز افضل کے مابین ہوگا۔
راولپنڈی کے حلقہ این اے 60 میں مسلم لیگ (ن) کے حنیف عباسی اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے مابین کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی، لیکن حنیف عباسی کو ایفی ڈرین کیس میں عمر قید کی سزا اور الیکشن کیلئے نا اہل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے یہاں انتخاب موخر کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ حلقہ این اے 60 میں مسلم لیگ (ن) دھڑے بندیوں کا شکار ہونے کے باعث نواز لیگ کے کئی مقامی رہنما پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 60 میں شامل کی گئی شکریال کی 5 میں سے 3 یونین کونسلیں، جبکہ پورے حلقے کی کل 14 یونین کونسلوں میں سے 5 یونین کونسلیں پی ٹی آئی جیتی ہوئی ہے۔ جبکہ 9 یو سیز مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی ہیں۔ حلقے میں مسلم لیگ (ن) کا نظریاتی ووٹ موجود ہے۔یہ حلقہ راولپنڈی شہر کے شمال مشرقی علاقوں پر مشتمل ہے جس کی حدود مری روڈ کی مشرق سمت اسلام آباد ایکسپریس وے تک ، مغرب میں راولپنڈی کینٹ ، جبکہ جنوب میں جی ٹی روڈ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ حلقے میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 56 ہزار 935 ہے۔ پی پی 11 پر پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے امیدواروں کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ پی ٹی آئی کے چوہدری محمد عدنان اس سے قبل بھی صوبائی اسمبلی کے امیدوار رہے ہیں۔ تاہم انہیں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ تاہم اس بار نہ صرف انہیں شیخ رشید کی حمایت حاصل ہے، بلکہ علاقے میں موجود چوہدری برادری کا ووٹ بھی ان کے پلڑے میں جانے کا امکان ہے۔ صوبائی حلقہ پی پی 17 پر بھی اصل مقابلہ پی ٹی آئی کے فیاض الحسن چوہان اور مسلم لیگ (ن) کے راجہ حنیف کے مابین ہوگا، جبکہ ایم ایم اے کے امیدوار رضا احمد شاہ بھی بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے دونوں امیدوار حلقے کے مقامی ہیں۔ فیاض الحسن چوہان اس حلقے سے ایک مرتبہ کامیاب ہو چکے ہیں، جبکہ نواز لیگ کے راجہ حنیف بھی رکن صوبائی اسمبلی رہے ہیں۔ تاہم فیاض الحسن چوہان کو پی پی 17 میں پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی 5 یونین کونسلوں کی بنیاد پر برتری حاصل ہے۔
این اے 61 رقبے کے اعتبار سے راولپنڈی شہر کا سب سے بڑا حلقہ ہے جہاں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کے مابین کانٹے کا مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔ گزشتہ دو عام انتخابات میں اس حلقے سے کامیاب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے ملک ابرار کا مقابلہ تحریک انصاف کے عامر محمود کیانی سے ہوگا۔ 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی خاتون امیدوار حنا منظور نے اس حلقے سے 68 ہزار 687 ووٹ حاصل کیے تھے اور ملک ابرار ساڑھے 7 ہزار ووٹوں کی برتری سے جیت گئے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقے میں پی ٹی آئی کا بھاری ووٹ بینک موجود ہے۔ حلقے میں رجسٹرڈ کل ووٹروں کی تعداد 3 لاکھ 67 ہزار 782 ہے۔ مقامی سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں ایک خاتون امیدوار کا ملک ابرار کے مقابلے میں بھاری ووٹ حاصل کرنا، جبکہ اس کا کوئی سیاسی پس منظر بھی نہیں تھا، ظاہر کرتا ہے کہ اس مرتبہ انتخابات میں ملک ابرار کو مزید سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے مد مقابل عامر محمود کیانی پی ٹی آئی کے حوالے سے ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ اس حلقے سے ماضی میں انتخاب لڑنے والے پی ٹی آئی رہنمائوں راجہ بشارت اور غلام سرور خان کے ووٹ بینک سے بھی مستفید ہوں گے۔ جبکہ حلقے میں اثر و رسوخ رکھنے والے چوہدری نثار علی خان کے سپورٹر بھی اس حلقے سے کھل کر پی ٹی آئی کے امیدوار کی حمایت کر رہے ہیں۔ پی پی 14 میں مسلم لیگ (ن) کے اسامہ چوہدری اور پی ٹی آئی کے محمد بشارت راجہ کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ سینیٹر چوہدری تنویر کے بیٹے اسامہ چوہدری سیاست میں نووارد ہیں۔ البتہ چوہدری تنویر کی شخصیت کے بل بوتے پر میدان میں اترنے والے اسامہ چوہدری بھرپور کمپین چلا رہے ہیں اور جیتنے کے لیے پرعزم ہیں۔ حلقے میں مسلم لیگ (ن) کے نظریاتی ووٹ کے علاوہ انہیں چوہدری برادری سے بھی ووٹ حاصل ہونے کی امید ہے۔ دوسری جانب حلقے میں پی ٹی آئی کی نمائندگی محمد بشارت راجہ کر رہے ہیں۔ راولپنڈی کینٹ اور ضلع راولپنڈی کے بعض دیہی علاقوں پر مشتمل حلقہ پی پی 15 سے مسلم لیگ (ن) کے ملک افتخار اور پی ٹی آئی کے عمر تنویر میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ملک افتخار کو سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر برتری حاصل ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے عمر تنویر نے 2013ء کے انتخابات میں اس حلقے سے ہارنے کے باوجود ساڑھے 36 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس حلقے پر ملک افتخار اور عمر تنویر کے مابین سخت مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔
این اے 62 پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور مسلم لیگ (ن) کے بیرسٹر دانیال چوہدری کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ جبکہ دیگر امیدواروں میں پیپلز پارٹی کی سمیرا گل، ایم ایم اے کے طارق منیر اورتحریک لبیک کے چوہدری قدیر احمد اپنی جماعتوں کی بنیاد پر حلقے میں مناسب ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ این اے 62 سے 7 مرتبہ کامیابی حاصل کرنے والے شیخ رشید کو پی ٹی آئی کی حمایت کے باعث اپنے حریف پر برتری حاصل ہے۔ تاہم حلقے میں مسلم لیگ (ن) کے نظریاتی ووٹ بینک کی موجودگی اور راولپنڈی کی سیاست میں پرانا نام سینیٹر چوہدری تنویر کا بیٹا ہونے کے ناطے بیرسٹر دانیال چوہدری بھی مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ لیگی ذرائع کے مطابق مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم کا حصہ رہنے والے بیرسٹر دانیال کو ان کے والد چوہدری تنویر کے میاں نواز شریف سے قریبی تعلقات کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹ دیا گیا ہے۔ فیصلے کے خلاف مقامی لیگی رہنمائوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں، خصوصاً اس حلقے سے شیخ رشید احمد کو شکست سے دوچار کرنے والے شکیل اعوان اس فیصلے سے سخت نالاں ہیں۔ لیگی ذرائع کے مطابق اس وقت صرف اس حلقے میں نواز لیگ کے کم ا ز کم 4 دھڑے موجود ہیں۔ دوسری جانب این اے 62 اور اس کے ذیلی صوبائی حلقوں میں ایم ایم اے، تحریک لبیک اور ملی مسلم لیگ کے امیدوار جیتنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتے۔ تاہم ان کی جانب سے توڑے جانے والے ووٹ دیگر مضبوط امیدواروں کی فتح و شکست میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ این اے 62 میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 52 ہزار 930 ہے جن کی تعداد میں 2013ء کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پی پی 16 میں تحریک انصاف کے راجہ راشد حفیظ اور مسلم لیگ (ن) کے شیخ ارسلان حفیظ کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ جبکہ ایم ایم اے کے امیدوار اور سابق ایم پی اے حنیف چوہدری بھی مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں اس حلقے سے کامیاب ہونے والے راجہ راشد حفیظ اپنے حریف پر نفسیاتی برتری رکھتے ہیں اور عوامی مسلم لیگ (ن) کے شیخ رشید احمد کے حمایت یافتہ ہونے کے سبب حلقے میں پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کے علاوہ شیخ رشید احمد کے ووٹروں کی حمایت کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اور اسی حلقے کی ایک یونین کونسل کے چیئرمین رہنے والے شیخ ارسلان حفیظ حلقے میں اپنی پہچان اور مسلم لیگ (ن) کے نظریاتی ووٹروں کی بنیاد پر میدان میں اترے ہیں۔ پی پی 18 میں مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم این اے شکیل اعوان اور پی ٹی آئی کے اعجاز خان جازی کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ رکن قومی اسمبلی رہنے والے اور شیخ رشید احمد کو قومی اسمبلی کی نشست سے شکست دینے والے شکیل اعوان حلقے میں مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ جبکہ ان کے حریف اعجاز خان پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کے علاوہ شیخ رشید احمد کے حمایت یافتہ ہونے کی بنیاد پر برتری کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ مقامی سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نواز لیگ میں دھڑے بندی شکیل اعوان کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جس کا واضح فائدہ ان کے مخالف امیدوار کو پہنچے گا۔
راولپنڈی کی تحصیل ٹیکسلا پر مشتمل حلقہ این اے 63 پر پاکستان تحریک انصاف اور جیپ کے نشان پر کھڑے آزاد امیدوار اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور تحریک لبیک حلقے میں کوئی مضبوط امیدوار سامنے لانے میں ناکام رہی ہیں۔ غلام سرور خان اس حلقے سے دو مرتبہ چوہدری نثار علی خان کو شکست دے چکے ہیں۔ جبکہ یہیں سے چوہدری نثار علی خان ایک مرتبہ غلام سرور خان کو بھی شکست دے چکے ہیں۔ اس لیے 25 جولائی کو اس حلقے سے دونوں امیدواروں کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق غلام سرور خان یہاں سے بطور آزاد اور پی ٹی آئی امیدوار کامیاب ہو چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حلقے میں ان کا مضبوط ذاتی ووٹ بینک موجود ہے۔ جبکہ ان کے مد مقابل چوہدری نثار اس سے قبل یہاں سے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر کامیاب رہے تھے۔ تاہم اس مرتبہ وہ آزاد حیثیت میں سامنے آئے ہیں۔ چنانچہ پلڑا اسی امیدوار کا بھاری ہو گا جو شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں سیاسی جوڑ توڑ اور رابطوں کا بہتر استعمال کر ے گا۔
تحصیل ٹیکسلا کے مضافاتی اور دیہی علاقوں پر مشتمل صوبائی حلقہ پی پی 19 میں تحریک انصاف کے عمار صدیق اور جیپ کے نشان پر کھڑے آزاد امیدوار ملک عمر فاروق کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ پی ٹی آئی کے عمار صدیق خان حلقے سے مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے والد صدیق خان مرحوم 2013 ء کے انتخابات میں اسی حلقے سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم ان کی وفات کے بعد یہ نشست خالی ہوگئی، جس پر ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ملک عمر فاروق کامیاب رہے تھے۔ عمار صدیق خان این اے 63 سے پی ٹی آئی کے امیدوار غلام سرور خان کے بھتیجے ہیں۔ ٹیکسلا کے شہری علاقوں پر مشتمل پی پی 20 پر پی ٹی آئی کے ملک تیمور مسعود اور نواز لیگ کے راجہ محمد سرفراز اصغر کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ جبکہ اس حلقے میں تحریک لبیک کے امیدوار محمد اسلم خان کی پوزیشن بھی خاصی مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے تیمور مسعود کامیاب قرار پائے تھے اور اس مرتبہ بھی اچھی پوزیشن رکھتے ہیں۔ تاہم تحریک لبیک کے امیدوار محمد اسلم خان اور آزاد امیدوار فیصل اقبال ان کی پوزیشن کمزور کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ جیپ کے نشان پر انتخاب لڑنے والے آزاد امیدوار فیصل اقبال پی ٹی آئی کے تیمور مسعود کے چچا ہیں۔ جبکہ تحریک لبیک کے محمد اسلم خان بھی اسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں ہی پی ٹی آئی کے امیدوار کی برادری کا ووٹ تقسیم کرنے کا سبب بنیں گے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے امیدوار محمد سرفراز اصغر حلقے میں مسلم لیگ (ن) کے نظریاتی ووٹ بینک کے باعث مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More