امت رپورٹ
پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے پرویز خٹک حکومت کے سب سے بڑے پروجیکٹ بس رپیڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کے خلاف تحریری حکم نے تحریک انصاف خیبرپختون کے کیمپ میں مایوسی پھیلا دی ہے۔ عدالتی حکم میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ڈی جی، پی ڈی اے اسرارالحق کا آڈیٹر جنرل گروپ سے تعلق ہونے کے باوجود انہیں پی ڈی اے کا ڈائریکٹر جنرل بناکر بس سروس منصوبہ ان کے حوالے کیا گیا۔ دوسری جانب نیب کے شکنجے میں آنے کے بعد اسرارالحق نے واپس اے جی آفس اسلام آباد جانے کی اجازت مانگ لی۔ جبکہ تازہ اطلاعات کے مطابق نیب نے گزشتہ روز (پیر کو) تین بجے بی آر ٹی منصوبے کا تمام ریکارڈ تحویل میں لے لیا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے دور حکومت کے میگا پروجیکٹ بی آر ٹی (بس رپیڈ ٹرانزٹ) میں تاخیر اور منصوبے میں تقریباً19 ارب روپے کے اضافے کی تحقیقات کیلئے نیب کو ریفرنس بجھوانے اور تحقیقات پانچ ستمبر تک مکمل کر کے ہائیکورٹ میں پیش کرنے کا دیدیا ہے، جس پر پی ٹی آئی کے وزارت اعلیٰ کے کئی متوقع امیدوار پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے چند روز قبل جے یو آئی (ف) کے صوبائی رہنما مولانا فضل حقانی نے بی آر ٹی منصوبے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا کہ بی آر ٹی منصوبے میں تاجروں، دکانداروں اور ماحولیات کے ماہرین کو نہیں سنا گیا اور ان کی آرا کو نظر انداز کر کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا، جس سے پشاور شہر میں نہ صرف ماحولیات کو خطرات لاحق ہیں، بلکہ تاجروں کے اربوں روپے کے کاروبار کے علاوہ عمارتوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس حوالے سے مولانا حقانی نے موقف اختیار کیا تھا کہ بی آر ٹی پر کام بند کر دیا جائے۔ تاہم پشاور ہائیکورٹ نے بی آر ٹی پر کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا، تاہم ساتھ ہی ماحولیات کے ماہرین کی آرا جاننے اور شہریوں کی جانب سے شکایات پر ڈی جی پی ڈی اے کو بھی بلایا تھا اور بی آر ٹی کی تمام دستاویزات طلب کر لی گئی تھیں۔ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور خاتون جج جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے طویل سماعت کے بعد گزشتہ روز مختصر حکم نامہ جاری کیا ہے، جس میں نیب کو حکم دیا گیا کہ وہ پانچ ستمبر تک بی آر ٹی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔ جس پر نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ہدایات پر نیب کے صوبائی سربراہ فرمان اللہ نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نیب حکام نے گزشتہ روز (پیر کو) تین بجے بی آر ٹی منصوبے کا تمام ریکارڈ تحویل میں بھی لے لیا ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کی پرویز خٹک حکومت نے آخری سال میں پشاور میں چمکنی سے لے کر کارخانو مارکیٹ تک تقریباً ستائیس کلو میٹر منصوبے کا آغاز کیا۔ ابتدائی طور پر ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور صوبائی حکومت نے پروجیکٹ کی لاگت 49.3 ارب روپے لگائی تھی اور منصوبے کی میعاد تین سال رکھی گئی تھی۔ تاہم پرویز خٹک حکومت نے اس منصوبے کو الیکشن میں کامیابی کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا اور پروجیکٹ کیلئے 6 ماہ کی قلیل مدت دی۔ پی ٹی آئی حکومت نہ صرف بی آر ٹی منصوبے کو مقررہ مدت میں مکمل کرنے میں ناکام رہی، بلکہ صوبائی حکومت کے دیگر محکموں سے 15 ارب روپے سے زائد رقم بھی اس پروجیکٹ کیلئے منتقل کر دی۔ جس سے صوبائی محکموں کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ بی آر ٹی منصوبے کیلئے ریوائز پی سی ون تیار کیا گیا اور منصوبہ 49 ارب سے بڑھ کر تقریباً68 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اب عدالت کی جانب سے مختصر حکم میں کہا گیا ہے کہ معاملہ نیب کو بجھوایا جاتا ہے، تاکہ اس کی باضابطہ تحقیقات کی جائے اور اس بات کا بھی پتہ لگایا جائے کہ 49.3 ارب سے ابتدائی لاگت 67.9 ارب تک کیسے پہنچ گئی۔ مزید یہ بھی لکھا گیا کہ عدالت کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ دوسری صوبے میں ایک بلیک لسٹ کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا، جو بدنیتی پر مبنی ہے۔ جبکہ دیگر اہم منصوبوں کی رقم بھی بی آر ٹی پروجیکٹ کو منتقل کی گئی ہے۔ فزیبلٹی رپورٹ سمیت ٹھیکہ دینے کا عمل اور بی آر ٹی سے متعلق تمام امور مبہم ہیں۔ اس لئے عدالت عالیہ نیب کو حکم دیتی ہے کہ وہ پانچ ستمبر تک اس منصوبے سے متعلق تمام تحقیقات کر کے رپورٹ اگلی سماعت پانچ ستمبر 2018ء تک جمع کرادے۔ ادھر بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے پشاورہائیکورٹ کا حکم آنے کے بعد پشاورکیلئے پی ٹی آئی کے فوکل پرسن شوکت یوسف زئی بس سروس منصوبے کی نگرانی کرنے والے شاہ فرمان اور پی ٹی آئی کے سابق وزیر اعلیٰ کے کیمپوں میں پریشانی کے آثار ہیں اور پرویز خٹک کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ شاہ فرمان اور پرویز خٹک انتخابات میں کامیابی کی صورت میں پی ٹی آئی کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ تاہم نیب کی تحقیقاتی رپورٹ پرویز خٹک سمیت دیگر افراد کے سر پر تلوار کی طرح لٹکتی رہے گی۔ عدالت عالیہ کے فیصلے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ماہر افسر کے بجائے ایک آڈٹ پر عبور رکھنے والے افسرکو بی آر ٹی پروجیکٹ کا ڈائریکٹر بنایا اور اسی سبب منصوبے کی لاگت بڑھی ہے۔ جبکہ پشاورکے شہریوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے پی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل اسرارالحق نے اپنے اصل محکمہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان واپس جانے کی اجازت مانگ لی ہے، اور عدالت کی جانب سے انہیں اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ عدالت کی جانب سے نیب کو تحقیقات کا حکم دینے کے بعد نہ صر ف پی ٹی آئی خیبرپختون کو انتخابات میں مشکلات ہوں گی، بلکہ وہ منصوبہ جس پر تحریک انصاف کے بڑے اور چھوٹے رہنما انتخابی مہم میں تقریریں کرتے نہیں تھکتے تھے، اب انہیں چپ لگ گئی ہے۔ جبکہ مخالفین ایم ایم اے، اے این پی، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر نے بی آر ٹی منصوبے پر عدالت عالیہ کے مختصر فیصلے کو پی ٹی آئی کے خلاف ہتھیار بنا لیا ہے۔ پی ٹی آئی کے خلاف پروپیگنڈا تیز کر دیا ہے۔