اسلام آباد( رپورٹ: اخترصدیقی)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی کی متنازعہ تقریرکےمعاملے پروکلا تنظیموں میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ پاکستان بار کونسل نےتحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کا فل بنچ بنانے کا مطالبہ کردیا ،جب کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس حوالے سے لائحہ عمل طے کرنے کیلئے 27 جولائی کو اجلاس بلایا ہے۔ ادھر راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے جسٹس شوکت کی تقریر سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی بھرپور مذمت کی ہے۔پیر کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر خرم مسعود کیانی اور جنرل سیکریٹری راجا عامر نےکہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو نوجوان وکلا کے لیے قانونی اخلاقیات پر لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا تھا ، تاہم انہوں نے سپریم کورٹ ، پاک فوج اور آئی ایس آئی کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ،ان سے ہم سو فیصد اختلاف کرتے ہیں ۔ہماری فوج کے جوان بارڈرز پر جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور ملکی دفاع کو مضبوط کر رہے ہیں ۔ہم کسی ایسی بات جو ان اداروں کی توہین کے مترادف ہو ،اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے صدرپیر کلیم خورشیدنے’’ امت‘‘ کوبتایاکہ صورت حال انتہائی الارمنگ ہے ۔اس لیے اس معاملے کاجائزہ لیاجاناضروری ہے ۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ سے مشاورت کی تھی ،تاکہ مشترکہ اجلاس میں متفقہ لائحہ عمل اور ردعمل دیں ،تاہم وہ اپنی بات سے پھر گئے ،ہم اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ27جولائی کے اجلاس میں پاکستان بار کونسل بھی شریک ہو اورمشترکہ مؤقف سامنے لایا جائے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے بار ہاسپریم جوڈیشل کونسل میں موجودججزکے خلاف شکایات کوجلدسے جلدنمٹانے کی بات کی ہے ،جوقصوروار ہیں ،ان کوفارغ کردیں اور جونہیں ہیں ان کے خلاف معاملات ختم کردیں ،تاہم کسی کوبھی ملک کی سلامتی سے نہیں کھیلناچاہیے۔ جسٹس صدیقی والامعاملہ انتہائی اہم ہے اور حساس بھی ہے ۔انھوں نے قومی اداروں کے حوالے سے بات کی ہے اور ان پر الزامات لگائے ہیں ۔وکلا میں اختلاف رائے ہوسکتاہے مگرقومی اداروں کے خلاف اس طرح کے بیانات نہیں آنے چاہییں ۔انھوں نے کہاکہ یہ عدلیہ کامعاملہ ہے ،اس میں وہی اس کی تحقیقات کرسکتی ہے ۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ بار صدرپیر کلیم خورشید کے ساتھ مشترکہ اجلاس بلانے پر کوئی بات نہیں کی تھی ۔دونوں الگ تنظیمیں ہیں اور چونکہ عام انتخابات ہورہے ہیں ،اس لیے دوستوں سے فون پرمشاورت کرکے سرکلرجاری کردیا ہے ،تاکہ دوستوں کواسلام آبادنہ آنا پڑے۔اس حوالے سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے تقریباً ہر الیکشن کے حوالے سے تنازعات موجود ہیں ،مگراس بار یہ تنازعہ الیکشن سے پہلے ہی شدت اختیار کرچکا ہے ،جسے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج کی ایک تقریر سے مزید ہوا ملی۔ہم نے اسے انتہائی سنجیدگی اور تکلیف سے لیا ہے ،کہ کیونکہ اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی بحث سرحدوں سے باہر بھی گئی اور یقیناً مزید جائے گی۔ جس سے آئندہ آنے والی حکومت کے حق اقتدار کے متعلق بھی سوالات جنم لیں گے۔ فاضل جج کا بیان آنے پر وائس چیئرمین ، پاکستان بار کونسل کی رائے تھی کہ اس معاملے کو تیسرے فریق کے ذریعے Inquire کیا جائے یعنی سینیٹ کے ممبران پر مشتمل کمیٹی اس معاملے کو دیکھے ،مگر اس دوران سپریم کورٹ نے اس بیان کا نوٹس لے لیا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے اور جسٹس صدیقی کی طرف سے بھی تحقیق کا مطالبہ سامنے آیا اور بار کونسل کے ایک معزز رکن جناب راحیل کامران شیخ کا خط بھی موصول ہوا ،جنہوں نے اس معاملے کو Full Court میں رکھنے کا مطالبہ کیا۔ اس انتہائی حساس معاملہ میں جس کے ساتھ عدلیہ کی آزادی، خودمختاری اور ملکی بقا جڑی ہوئی ہے پر دستیاب ساتھیوں سے مشورہ کیا گیا جن کی متفقہ رائے میں اس قضیہ کو فل کورٹ میں سماعت کرے۔ پاکستان کی تمام Major Bars کی موجودگی کو یقینی بنانے اور میڈیا کی موجودگی کے ساتھ ساتھ civil Society کی حاضری کو بھی یقینی بنانا ضروری ہوگا۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل یہ سمجھتی ہے کہ اس الزام کو قالین کے نیچے دبانے سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ اداروں کی ساکھ خراب ہوگی۔ ملکی وقار تباہ و برباد ہوکر رہ جائے گا۔ لہذا اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا کہ پاکستان کی عدالت عظمی کے تمام جج اس معاملے کی سماعت کھلی عدالت میں کریں ۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )جسٹس شوکت عزیزصدیقی کی جانب سے قومی اداروں اور اعلی عدلیہ پر الزامات کی تحقیقات شروع کردی گئیں۔ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ، جب تک یہ طاقتور عدلیہ موجود ہے ،ملک پر اللہ کا فضل رہے گا۔ کسی سے نا انصافی نہیں کریں گے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ بھی انصاف ہو گا۔پیر کے روز سپریم کورٹ کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز نے اعلیٰ عدلیہ کو بدنام کیا اور قو می اداروں پر الزامات لگائے ہیں۔ان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ حاصل کرلیا گیا ہے۔اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو الزامات کے ثبوت حاصل کرنے کی ہدایت کی اور کہا ہے کہ فاضل چیف جسٹس شواہد اور رائے بھی بھجوائیں ،تاکہ ان کا جائزہ لیکر مناسب کارروائی کی جائے۔ رجسٹرار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم سے آگاہ کردیا ہے۔قبل ازیں جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف ازخود نوٹس لینے سے متعلق درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ وہ اس معاملے پر پہلے ہی نوٹس لے چکے ہیں ،اس لیے ازخود نوٹس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔درخواست گزار اس معاملے پر پٹیشن دائر کرنا چاہتاہے تو کر لے۔انہوں نے اس موقع پر اپنا حلف بھی پڑھ کرسنا یا اور کہاکہ ملک کے خلاف کچھ نہیں ہو رہا، جب تک یہ طاقتور عدلیہ موجود ہے ملک پر اللہ کا فضل رہے گا۔ کسی سے نا انصافی نہیں کریں گے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ بھی انصاف ہو گا۔