سرفروش

0

عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)

میں نے کراہوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ میں غسل خانے سے نکلتے ہوئے آپس میں پاؤں الجھ جانے کی وجہ سے لڑکھڑا گیا تھا۔ سنبھلنے کے لیے غسل خانے کا دروازہ تھامنا چاہا تو وہ ہاتھ سے پھسل کر زور سے میری پیشانی سے ٹکرایا۔ اس کے بعد مجھے ہوش نہیں رہا۔
اس اثنا میں مہندر بھی وہاں پہنچ گیا۔ میرے میزبان مجھے احتیاطی معائنے کے لیے اسپتال پہنچانے کے درپے تھے، لیکن میں نے اپنی حالت بہتر بتاتے ہوئے اسے غیر ضروری قرار دیا۔ قدرے اصرار کے بعد میری بات مان لی گئی اور میری چوٹ کو جلد از جلد ٹھیک کرنے کے لیے دیسی نسخے اور ٹوٹکے تجویز کیے جانے لگے۔ اس موقع پر میں نے بتایا کہ سر کی چوٹ کے ساتھ ساتھ میری کمر میں بھی شدید ’’چُک‘‘ آئی ہے، جس کی وجہ سے میں اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سخت تکلیف محسوس کر رہا ہوں۔
اس پر ان سب کے متفقہ ’’طبی بورڈ‘‘ نے میرے لیے مختلف طرح کی مالشوں اور ورزشوں کے ساتھ صبح شام ہلدی ملے دودھ کا نسخہ تجویز کیا۔ خاصی دیر میرے کمرے میں منڈلی جمانے کے بعد وہ سب مجھے مکمل آرام کا مشورہ دے کر باری باری رخصت ہو گئے۔ لاجو بہن وہاں سے جانے والی آخری فرد تھیں۔ ان کی تشویش دیکھ کر مجھے شرمساری کے ساتھ اپنائیت بھی محسوس ہوتی رہی۔
کمرا خالی ہونے پر میں نے سکون کا سانس لیا۔ اب مجھے کئی دن تک یہاں سے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ امید ہے اس وقت تک علاقے میں پولیس کی طرف سے پیدا کی گئی ہنگامی صورتِ حال بھی ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ ویسے بھی ان لوگوں میں سے کوئی مجھے یہاں سے رخصت کرنے میں دلچسپی لیتا نظر نہیں آتا تھا۔
میں درد برداشت کرتے ہوئے آرام کرتا رہا۔ لگ بھگ ایک گھنٹے بعد مہندر اور سکھپال ایک بار پھر آن دھمکے۔ مہندر درد کی کچھ گولیاں ساتھ لایا تھا، جبکہ سکھپال نے ہلدی ملا گرما گرم دودھ اور جڑی بوٹیوں سے بنایا گیا ایک لیپ اٹھا رکھا تھا۔
’’تُسی اے گولیاں دودھ نال کھالو، تے نالے سر تے کمر اُتے اے جادو دا لیپ کرالو، واہگرو کرپا کرے گا۔ سویر تک اُٹھن جوگے ہوجاؤ گے‘‘۔ (آپ یہ گولیاں دودھ کے ساتھ کھالیں، ساتھ ہی سر اور کمر پر اس جادوئی مرہم کا لیپ کروالیں، واہگورو رحم کرے گا۔ صبح تک اٹھنے کے قابل ہوجائیں گے)۔
سکھپال نے فخرآمیز لہجے میں کہا۔ مہندر نے اس کی تائید کی ’’ اے لیپ ساڈے دادے سردار گروندر ہوراں دا نسکھا اے۔ کدی فیل نئیں ہویا! تُسی وی یاد کرلیو… چوٹ سجی، آمہ ہلدی، ناکھونا، بابونا، تے گھیکوار دا پٹھا! ان سب نوں سرسوں سے تیل وچ پکا کے بنائی دا اے لیپ!‘‘۔ (یہ لیپ ہمارے دادا سردار گروندر صاحب کا نسخہ ہے، کبھی ناکام نہیں ہوا۔ آپ بھی یاد کرلیں… چوٹ سجی، آمہ ہلدی، ناخونہ، بابونہ اور گھیکوار کا پٹھا! ان سب کو سرسوں کے تیل میں پکاکر بنایا جاتا ہے یہ لیپ!‘‘۔
اللہ جانے قصبے کے ڈاکٹر سے لائی گئی گولیوں نے کام دکھایا، اس لیپ میں واقعی اثر تھا، یا ہلدی ملے دودھ کی کرامت تھی۔ بہرحال چند گھنٹوں کے اندر مجھے اپنی پیشانی کی چوٹ کے درد میں نمایاں کمی ہوئی۔ البتہ میں کمر کی چُک کو بدستور اذیت ناک قراردے کر وقفے وقفے سے آہیں بھرتا رہا۔
رات کے کھانے کے بعد ایک بار پھر تیمارداروں کا میرے کمرے میں اجتماع ہوا۔ میری حالت میں بہتری پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
’’آکاش دھرن جی… اے چُک دی تُسی چنتا نہ کرنا… تن چار دناں وچ آپے ٹھیک ہو جاوے گی!‘‘۔ ہرمندر نے میرا شانہ تھپتھپاتے ہوئے تسلی دی۔ جوگندر نے بھی اپنے بڑے بھائی کی تائید کی۔
لاجو بہن پہلے ہی ’’باضابطہ طور پر‘‘ گھر والوں کے سامنے مجھے اپنا ویر نام زد کر چکی تھی۔ لہٰذا مجھ سے گھر والوں کے اچھے برتاؤ سے خوش نظر آ رہی تھی۔ وہ اور مہندر باقی گھر والوں کے رخصت ہونے کے بعد بھی میرے پاس بیٹھے رہے۔ اچانک مہندر نے پوچھا ’’آکاش پاہ جی، مائنڈ نہ کرو تو اِک گل پچھ سکنا واں؟‘‘۔
یہ سنتے ہی چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق، میرے دل میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ کہیں میرا پول تو نہیں کھلنے والا؟ تاہم میں نے اپنا لہجہ خوش گوار رکھتے ہوئے کہا ’’تکلف دی کوئی لوڑ نئیں مہندر جی، جو چاہو پچھو!‘‘۔
اس نے محتاط لہجے میں کہا کہ اس نے لاجو چچی کی زبانی سنا ہے کہ میں اپنے گھر والوں سے بچھڑا ایک شرنارتھی (پناہ گزین) ہوں اور تنگوالی میں میری کوئی پکی ملازمت نہیں ہے۔
یہ سن کر میں نے چین کی سانس لی اور اس کے بیان کی تائید کی۔
اس نے قدرے جوش بھرے لہجے میں کہا ’’تے فیر تُسی اپنی چوٹ ٹھیک ہون دے بعد اساڈے کول ای کم تے کیوں نہیں لگ جاندے؟‘‘۔
میری خاموشی کو نیم رضامندی گردانتے ہوئے اس نے مزید پوچھا ’’اچھا، اے دسو، تُسی گڈی چلا لیندے او؟‘‘۔
میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ خوش ہوگیا ’’سانوں اج کل ڈرائیور دی بڑی لوڑ اے! تُسی من لو تے…‘‘۔
میں نے کہا کہ مجھے اس کی پیش کش قبول کرنے میں کوئی اعتراض نہیں، لیکن مجھے اپنے گھر والوں کی تلاش میں وقتاً فوقتاً ملک کے مختلف شہروں میں جانا ہوتا ہے اور مجھے پتا نہیں ہوتا کہ کب میری واپسی ہوگی۔ اس پر مہندر نے کہا کہ میں فی الحال کچھ دنوں تک اس کی پیش کش قبول کرلوں، کیونکہ شادی بیاہ کے دنوں میں مہمانوں کو لانے لے جانے کے لیے اسے ڈرائیور کی شدید ضرورت پڑے گی۔ وہ میرے ہی مطلب کی بات کر رہا تھا۔ چنانچہ میں نے بناوٹی ہچکچاہٹ کے بعد ہاں میں جواب دے دیا۔
صورتِ حال کے اس رخ سے لاجو بہن بہت خوش دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے مجھے کہا کہ فرید کوٹ میں واقع ان کے گھر کے دروازے مجھے اپنے لیے ہمیشہ کھلے ملیں گے۔ میں نے اس مہربانی پر سچے دل سے اس کا شکریہ ادا کیا۔
میں نے اگلے دو دن ’’بستر علالت‘‘ پر گزارے۔ اس دوران شادی کا دن عین سر پر آچکا تھا اور بھاری تعداد میں مہمانوں کی آمد کے ساتھ تمام گھر والوں کی مصروفیات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنی حالت بہتر ظاہر کرتے ہوئے رفتہ رفتہ چلنا پھرنا شروع کر دیا اور شادی سے پہلے والے دن مہندر کو بطور ڈرائیور اپنی دستیابی ظاہر کر دی۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More