امت رپورٹ
انتخابی عمل کی کوریج سے روکے جانے پر صحافی برادری نے احتجاج کی تیاری کرلی ہے۔ کراچی اور پاکستان یونین آف جرنلسٹس نے سیکورٹی کے نام پر ناروا سلوک کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر سے صحافیوں کی شکایات اکٹھی کی جا رہی ہیں، جس کے بعد الیکشن کمیشن میں تحریری درخواست جمع کرائی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ایکشن نہ لئے جانے کی صورت میں احتجاج کا فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے صحافیوں کو کوریج کیلئے جاری کئے جانے والے کارڈز پر واضح طور پر درج تھا کہ ان صحافیوں کو پولنگ اسٹیشن پر کوریج اور انتخابی عمل کی معلومات حاصل کرنے کی اجازت ہے، تاہم عملی طور پر پولنگ ڈے پر صحافیوں کو کوریج نہیں کرنے دی گئی۔ بلکہ سیکورٹی کے نام پر ناروا سلوک کی گیا۔ اس ضمن میں کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور کے صدر طارق ابوالحسن نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا اور آزادی اظہار رائے پر قدغن کے آثار الیکشن سے کچھ روز قبل ہی سامنے آنا شروع ہوگئے تھے۔ صحافتی اداروں کی جانب سے الیکشن کی کوریج کیلئے اپنے جن رپورٹرز کے کارڈز کی تیاری کیلئے کوائف الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے تھے، ان کی تیاری میں پہلی بار مسائل پیدا کئے گئے۔ مثال کے طور پر اگر ایک ادارے کی جانب سے 20 یا 30 صحافیوں کے کوائف الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے تو الیکشن کمیشن کی جانب سے صرف 10 سے15 افراد کے الیکشن ڈے کے کارڈز جاری کئے گئے اور ان میں بھی غیر ضروری تاخیر کی گئی۔ اس کے بعد جب کارڈز جاری ہوگئے تو کئی ایسی اطلاعات سامنے آنے لگیں جن میں میڈیا کیلئے تاریخ میں پہلی بار عجیب و غریب احکامات اور ہدایات دی گئیں۔ ان اطلاعات میں سے کچھ براہ راست الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئیں اور کچھ سوشل میڈیا کے ذریعے گردش کرتی رہیں۔ کچھ اطلاعات اور ہدایات ایسی تھیں کہ، میڈیا کے نمائندوں کو صبح جانے کی اجازت دی جائے گی اور دوپہر میں ان کو جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ پولنگ اسٹیشنز کے اندر صرف رپورٹرز کو ہی جانے کی اجازت ہوگی۔ کیمرہ مین کا داخلہ ممنوع ہوگا۔ موبائل فونز کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔ ووٹوں کی گتنی کے وقت بھی صرف رپورٹرز ہی اندر جائیں گے۔ اس طرح کی دیگر کئی ہدایات شامل تھیں، جن سے الیکشن کوریج کے دوران پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب پولنگ کا عمل شروع ہونے پر شہر بھر سے صحافیوں کی جانب سے ایسی شکایات موصول ہونا شروع ہوگئی تھیں کہ انہیں پولنگ اسٹیشن کے اندر تو کیا باہر بھی کوریج کرنے سے روکا جا رہا ہے اور پولنگ اسٹیشن کے سامنے کھڑے ہونے سے بھی منع کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات صریحاً الیکشن کمیشن کی جانب سے میڈیا کو دیئے جانے والے اجازت ناموں کی خلاف ورزی ہیں۔ طارق ابو الحسن کا مزید کہنا تھا کہ یہ اقدامات ایسے ہیں کہ جو واضح انداز میں الیکشن کے عمل کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ سیکورٹی کے نام پر صحافیوں کو پولنگ کے عمل سے دور رکھ کر کون سی اہم بات چھپائی جا رہی تھی۔ مثال کے طور این اے 239 کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں جب ایک صحافی نے کوریج کے دوران کسی طریقے سے پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے میں کامیابی حاصل کرلی، تو دیکھا گیا کہ وہاں سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ تک موجود نہیں تھے۔ اب جہاں نہ پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹ ہوں اور نہ میڈیا کوریج کرسکے تو ایسے انتخابات کے شفاف ہونے پر سوالیہ نشان تو اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شہر بھر کے صحافیوں کو پیش آنے والی مشکلات اور شکایات اکٹھی کی جا رہی ہیں تاکہ ایک مکمل رپورٹ بنا کر الیکشن کمیشن اور ملکی اداروں کے علاوہ ان غیر ملکی مبصرین کو ارسال کی جا سکے جو انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کر رہے تھے۔
کراچی یونین آف جرنلسٹ کے جنرل سیکریٹری حامد الرحمن نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ، کے یو جے (دستور) پولنگ عمل کے دوران میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ نامناسب رویہ اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے روکنے کی بھر پور الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ یہ آزادی اظہار رائے پر پابندی کے مترادف ہے اور یہ کسی بھی جمہوری معاشرے کے شایان شان نہیں۔ حامد الرحمن کے مطابق میڈیا نمائندوں نے انتخابی عملے اور سیکورٹی عملے کے ساتھ بھرپور تعاون کیا، لیکن پھر بھی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ صحافیوں کو آزادانہ کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ایسے رویے انتخابی نتائج کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے میڈیا کو جاری کردہ خصوصی اجازت نامے کو بھی سیکورٹی اہلکاروں نے ماننے سے انکار کر دیا اور پولنگ اسٹیشنز پر ویڈیو کلپ بنانے کی اجازت نہیں دی گئی اور خصوصی طور پر گنتی کے عمل سے بھی میڈیا کو دور رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی دیگر تنظیموں سے مل کر آئندہ کا لائحہ عمل بنائیں گے۔ جنرل سیکرٹری حامد الرحمن کا مزید کہنا تھا کہ منگل کو کے یوجے کے صدر طارق ابوالحسن اور سیکریٹری جنرل حامد الرحمن نے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے ایک خط میں ای سی پی کو باور بھی کروایا تھا کہ انہوں نے جن صحافیوں کو پولنگ ڈے کیلئے خصوصی پاسز جاری کئے ہیں، انہیں پولنگ اسٹیشنز کے اندر بلا روک ٹوک کوریج کی مکمل اجازت دی جائے اور الیکشن کمیشن کے حکام پولنگ عملہ اور سیکورٹی پر مامور اہلکار و افسران کو بھی واضح ہدایات جاری کی جائے کہ وہ صحافیوں کے ساتھ تعاون کریں۔ اس کے علاوہ پولنگ کے پورے عمل کا جائزہ اور رپورٹنگ کی اجازت بھی دی جائے۔ تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے اس پر کسی قسم کے رد عمل کا ظاہر نہیں کیا گیا، جس کی سخت الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے۔ حامد الرحمن کے بقول یہ جاننے کا حق عوام کے بنیادی حقوق میں سے ہے اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب صحافیوں کو آزادنہ کوریج کی اجازت ہوگی۔ پولنگ ڈے کے دوران اگر صحافیوں کو کوئی بھی بہانہ بناکر پولنگ اسٹیشن میں کوریج کرنے سے روکا جائے تو اس کی وجہ سے شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن پر سوالات اٹھائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پولنگ اسٹیشن میں صحافیوں کے کوریج کیلئے مخصوص اوقات کا تعین کرنا بھی پابندی کا مترادف ہے۔
پاکستان یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یوجے) کے جنرل سیکرٹری ایوب جان سرہندی نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر الیکشن میں صحافی پولنگ کے عمل کی آزادانہ کوریج کرتے رہے ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم اس بار صحافیوں کو جس انداز میں کوریج کرنے سے روکا گیا ہے یہ قابل مذمت عمل ہے، جس پر پی ایف یو جے کی جانب سے تفصیلی مذمتی بیان بھی جاری کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب الیکشن کمیشن کی جانب سے صحافیوں کو الیکشن کور کرنے کی اجازت دی گئی تھی تو اس پر عمل در آمد بھی کرنا چاہئے تھا۔ تاہم ایسا نہ کرکے ایک جانب آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی گئی اور دوسری جانب انتخابی عمل کو بھی مشکوک بنادیا گیا ہے۔