کراچی(اسٹاف رپورٹر) عام انتخابات میں کراچی سے پاک سرزمین پارٹی(پی ایس پی) کا صفایا ہی نہیں ہوا بلکہ یہ گروپ اپنے انجام تک پہنچ گیا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ چھوڑ کر پناہ کیلئے پی ایس پی میں شامل ہونے والے دہشت گردپاکستان سے نکلنے کیلئے سرگرم ہیں۔ پی ایس پی کے بیشتر رہنمائوں کی بھی یہی کوشش ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایس پی کو بنانے والوں نے اپنے جو مقاصد حاصل کرنے تھے وہ کر لیے ہیں اور اب کمال گروپ یا اس کی چھتری تلے آنے والوں کا کوئی مستقبل نہیں رہا۔ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ پی ایس پی کے بعض رہنما ئوں نے متحدہ میں واپسی کیلئے سر توڑ کوششیں شروع کر دی ہیں لیکن انہیں فوری طور پر کوئی جواب دینا تو درکنار متحدہ پاکستان کی قیادت نے مثبت اشارہ تک نہیں دیا۔ متحدہ کی قیادت خود الیکشن سے لگنے والے دھچکے سے سنبھلنے اور صورتحال کو سمجھنے میں مصروف ہے کیونکہ شہر کی ملکیت پر اس کے دعوے کی دھجیاں اڑ گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کمال گروپ کے خاتمے کے نتیجے میں کراچی کے امن و امان پر الطاف حسین کا کنٹرول مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔ متحدہ پاکستان کی صورت میں جو جماعت رہ گئی ہے وہ محض ایم کیو ایم کاسیاسی ونگ ہے۔ متحدہ کے تقریباً تمام دہشت گرد کمال گروپ میں ہیں اور اب ان کے خلاف مقدمات چلانا تحریک انصاف کے سربراہ اور نئے وزیراعظم عمران خان کا اصل امتحان ہوگا ۔ کراچی کےشہری اس بات پر نظررکھیں گے کہ بلدیہ فیکٹری ، سانحہ 12 مئی اوردہشت گردی کے دیگر واقعات میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے یا پھر عمران خان کے دعوے محض ’’سیاسی‘‘ ثابت ہوں گے۔ بدھ 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں پی ایس پی کی ناکامی نہ صرف حیرت انگیز تھی بلکہ عبرت ناک بھی۔ کمال گروپ ایک بھی نشست نہیں جیت سکتا۔ پی ایس پی کے سربراہ نےمصطفی کمال نے قومی کی ایک اورسندھ اسمبلی کی 2 نشستوں پرانتخاب لڑا تھا لیکن وہ بری طرح ہار گئے۔مصطفی کمال تینوں حلقوں سے مجموعی طور پر صرف 26ہزار 879 ووٹ لے سکے ، وہ قومی اسمبلی کی نشست پر صرف 12ہزار 891 ووٹ لے سکے۔اسی علاقے سے سندھ اسمبلی کی نشست پر صرف 7ہزار 605 ووٹ ملے ۔شریف آباد سےسندھ اسمبلی کی نشست پر انہیں صرف6383 ووٹ ملے۔ذرائع کے مطابق پی ایس پی کے لیے ان نتائج نے الیکشن لڑنے والے رہنمائوں سے زیادہ ان دہشت گردوں کو پریشان کردیا ہے جو متحدہ کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے بعد اس یقین دہانی پر پی ایس پی میں شامل ہوئے تھے کہ انکے خلاف مقدمات نہیں چلائے جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ پی ایس پی کو تخلیق کرنے والوں کے پیش نظر دو بڑے مقاصد تھے۔ اول یہ کہ ایم کیو ایم کو الطاف حسین سے چھڑایا جائے اور دوم یہ کہ ایم کیو ایم کے جتنے دہشت گرد اور غنڈے ہیں انہیں کراچی کا امن تباہ کرنے کیلئے استعمال کرنے کی صلاحیت الطاف یا کسی بھی دوسرے رہنما سے چھین لی جائے۔ تاکہ شہر میں دیر پا امن قائم ہوسکے اور یہاں ترقی و کاروبار کا سلسلہ بحال ہو۔ ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کو ایم کیو ایم سے الگ کرنے کیلئے پی ایس پی میں انیس قائم خانی کو سیکریٹری جنرل بنایا گیا جسے متحدہ میں دہشت گردوں کے سربراہ کی حیثیت حاصل تھی اور جس کےکنٹرول میں ہر سیکٹر و یونٹ انچارج تھا۔ اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم جو متحدہ پاکستان بن گئی ، کے پاس دہشت گردی کے لیے کوئی قوت نہیں رہی۔ دوسری جانب مصطفیٰ کمال نے یہ امیدیں لگا لیں کہ جیسے ہی الیکشن ہوں گے انہیں کچھ نشستیں مل جائیں گی۔ ان امیدوں کو اس وقت تقویت ملی جب ایم کیو ایم سے اراکین اسمبلی ٹوٹ کر پی ایس پی میں شامل ہونے لگے۔ذرائع کے مطابق پی ایس پی نے کوشش کی کہ کراچی کا کنٹرول اس کے حوالے کردیا جائے یا پھر اسے پی ٹی آئی کا حصہ بنا دیا جائے۔ تاہم یہ دونوں خواہشیں پوری نہ ہوسکیں۔ تحریک انصاف نہ تو پی ایس پی اور نہ ہی متحدہ کو قبول کرنے کے لیے تیار تھی۔ دوسری جانب پی ایس پی کو بڑا نقصان اس لیے بھی ہوا کہ جس ٹیم نے یہ گروپ تخلیق یا تھا وہ ریٹائرڈ ہو چکی تھی اور اس کا کوئی بڑا سرپرست نہیں رہا ۔ پی ایس پی کے معاملات سے باخبر ذرائع کے مطابق انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد گروپ میں شامل دہشت گردوں نے اپنے موبائل فون بند کردیئے ہیں ۔ سرفراز نورا،ندیم چکنا، ساجد رضا نیو کراچی والا، اسلم، سابق سیکٹر انچارج شعیب ، جاوید اورنگی والا، فرید عرف فریدو، وہاب، آصف شاہ، وقاص، ناصر، عبید، سہیل چاچا، عابد شاہ یہ سب غائب ہوگئے ہیں اور کئی ایک دبئی جانے کے لیے سرگرم ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ دہشت گرد متحدہ پاکستان میں بھی نہیں جا سکتے کیونکہ عامر خان کسی بھی ایسے شخص کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں جو حماد صدیقی کا ساتھی تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں ان کے جانے کا کوئی رتی بھر امکان نہیں اور آئندہ دنوں میں یہ پاکستان سے فرار ہو سکتے ہیں۔