صدارتی انتخاب میں تحریک انصاف کیلئے مشکلات کا خدشہ
اسلام آباد(مرزا عبدالقدوس) آنے والے صدارتی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے رہنماآصف علی زرداری ایک بار پھر قوم کو حیران کر سکتے ہیں کیونکہ آئندہ چند ہفتوں میں نئی حکومت سازی کے بارے میں جو اہم فیصلے ہونے ہیں ان میں ایک اہم مرحلہ نئے صدر کا انتخاب ہے کیونکہ موجودہ صدر ممنون حسین کی مدت صدارت3ستمبر کو ختم ہو رہی ہے جبکہ اگست کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں نئے صدر کا انتخاب قانونی صدارت ہے۔ پی ٹی آئی کے خلاف جو موجودہ سیاسی صف بندی موجود ہے اس کے مطابق تحریک انصاف کےلئے اپنے نامزد صدر کا انتخاب بہت مشکل ہوگا او راگر اس مرحلے کی کمان نواز شریف نے آصف علی زرداری کے سپرد کر دی تو وہ اپ سیٹ کر سکتے ہیں۔ شہباز شریف اس کے لیے تیار نہیں ہوئے لیکن نواز شریف کی مداخلت پر مجبور ہوکروہ آصف زرداری سے ہاتھ ملائیں گے۔ بعض ذرائع او ردستیاب اعدادوشمار کے مطابق سینٹ ، قومی اسمبلی اور چاروں اسمبلیوں کے تمام ممبران پر مشتمل صدا رتی الیکٹورل کالج1104 ممبران پر مشتمل ہے اور موجودہ صورتحال میں عمران خان کو اپنی جماعت سے اس الیکٹورل کالج کے 408ممبران کے علاوہ صرف سندھ ڈیمو کریٹک الائنس کے 17اور بلوچستان عوامی پارٹی کے 23اور ق لیگ کے 7ووٹرز کی حمایت حاصل ہے اس کے برعکس اپوزیشن اتحاد کے ووٹرز کی ممکنہ تعداد520سے تجاوز کر سکتی ہے جس میں مسلم لیگ ن کے 266،پی پی پی کے184ایم ایم اے 45،ایم کیو ایم 33،اے این پی 8اور محمود اچکزئی کی جماعت پختونخوا عوامی ملی پارٹی کے4ووٹ شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس مرحلے پر سینٹ میں موجود18،قومی اسمبلی میں 27اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود آزاد اراکین کے علاوہ عوامی راج پارٹی پاکستان تحریک انسانیت سے ہزارہ ڈیمو کریٹک فرنٹ او رایک ایک دو دو نشستوں والی جماعتوں کا بھی اہم کردار ہوگا۔ ا ن ذرائع کے مطابق اگر کسی خفیہ ہاتھ نے چیئرمین سینٹ کے انتخاب کی طرح پس پردہ کردار ادا نہ کیا اور مسلم لیگ ن اور پی پی نے اس مرحلے کو سر کرنے کےلئے مکمل اتفاق رائے کرلیا تووہ یہ الیکشن جیت سکتی ہیں۔ اس وقت سینٹ میں مسلم لیگ ن کے 31ووٹ ہیں ان میں سے بعض اہم افراد کا شمار آزاد ممبران میں کیا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیت کی شامل کر کے اس کی81،پنجاب اسمبلی میں ممکنہ طور پر 147،کے پی میں 5نشستیں ہوجائیں گی ۔ پی پی کے سینیٹرز کی تعداد20قومی اسمبلی کے ممبران کی ممکنہ تعداد56،سندھ میں99،پنجاب اور کے پی اسمبلیوں میں 4،4اور بلوچستان اسمبلی میں ایک ووٹ ہے۔ ایم ایم اے کے 45اور ایم کیو ایم کے 33صدارتی ووٹ ہیں جن میں5سینیٹرز اور14ممبران قومی اسمبلی، 3ممبران کے پی اسمبلی6 بلوچستان اسمبلی، 4ممبران سندھ اسمبلی اور 2 پنجاب اسمبلی کے نو منتخب ممبران شامل ہیں۔