لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کوشش کے باوجود اپنا گھر ٹھیک نہیں کرسکا۔ قومی خزانے کی بندر بانٹ کی اجازت نہیں دے سکتے، اسپتالوں میں مریضوں کے لیے دوائیاں نہیں ہیں اور افسران عیاشیاں کر رہے ہیں،یہ باتیں انھوں نے جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب اور سپریم کورٹ میں پنجاب کی 56 کمپنیز سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہی۔لاہور میں جوڈیشل اکیڈمی سے خطاب کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں نے بہت سے شعبوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی لیکن شاید میں وہ سب کچھ نہیں کرسکا جو کرنا چاہتا تھا، بدقسمتی سے آج بھی عدالتی نظام میں برسوں پرانے طریقے رائج ہیں، آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ہم پٹواری کے محتاج ہیں۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کوشش کے باوجود اپنے ہاؤس کو ان آرڈر نہیں کرسکا، مجھے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے، بار صرف ایک حصہ ہے، عدالتی نظام میں تبدیلی بتدریج آتی ہے، عدالتی نظام میں بہت سی اصلاحات کرنا ضروری ہیں، بعض اوقات قوانین میں تبدیلی کے باوجود بہت سے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے، ہم دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق قوانین میں ترامیم نہیں کرسکے، جج صاحبان کو بھی اپنے اندر فوری انصاف فراہم کرنے کا جذبہ پیداکرنا ہو گا، جب تک قانون پر عملداری کا جذبہ نہیں ہوگا،اس وقت تک بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ ہمیں بطورایک ادارہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے، کسی جج کواپنی غلطی کااحساس ہوجائےتووہ اگلےدن اس کامداوا کرے۔قبل ازیں سپریم کورٹ میں پنجاب کی 56 کمپنیز سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ ڈی جی نیب لاہور اور چیف سیکرٹری پنجاب عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ پنجاب حکومت نے جواب جمع کرایا جس میں کہا گیا کہ 346 سرکاری افسران کو 56 کمپنیز میں بھیجا گیا، جن کی فہرست نیب کو فراہم کردی ہے۔سپریم کورٹ نے ان تمام افسران کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آج طلب کرلیا اور اپنا موقف پیش کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے سرکاری شعبے سے کمپنیز میں جانے والے تمام چیف ایگزیکٹیو افسران (سی ای اوز) کی فہرست بھی فوری طور پر پیش کرنے کا حکم دیا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سرکاری افسر کے طور پر کیپٹن عثمان پنجاب حکومت سے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے تنخواہ لے رہا تھا، لیکن کمپنی میں جا کر 14 لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے، ہم ان افسران کو دیے جانے والے سارے پیسے واپس لے کر ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں گے، یہ عوام کے پیسے ہیں جن کی بندر بانٹ ی اجازت نہیں دے سکتے، اسپتالوں میں مریضوں کے لیے دوائیاں نہیں ہیں اور افسران عیاشیاں کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے کمپنیز میں تین لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے تمام افسران کو آج پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔