محمد قاسم
افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ نے قطر دفتر کی سفارش پر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیلئے ابتدائی مسودے کی منظوری دے دی ہے۔ جبکہ حقانی نیٹ ورک نے بعض معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ادھر افغان طالبان نے پاکستان کی نئی حکومت کے حوالے سے کوئی ردعمل دینے سے گریز کرتے ہوئے انتظار کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق افغانستان اور وسطی ایشیا کیلئے امریکا کی خاتون نمائندہ ایلس ویلز نے چند روز قبل قطر میں افغان طالبان کے نمائندوں مولوی عباس استنکزئی، شہاب الدین دلاور اور سہیل شاہین کے ساتھ ملاقات کی۔ قطر میں امریکی سفارت خانے کے حکام بھی اس ملاقات میں شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق امریکا نے افغان طالبان سے ایک مہینے کے اندر براہ راست مذاکرات شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے تجویز پیش کی ہے کہ وہ ترکی، قطر یا سعودی عرب میں بھی مذاکرات کرنے پر تیار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات ممکنہ طور پر وسطی ایشیا کے کسی ملک میں بھی ہو سکتے ہیں۔ حزب اسلامی کے سابق ترجمان اور اب قطر دفتر میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق امریکا براہ راست مذاکرات کیلئے نہ صرف آمادہ ہے، بلکہ طالبان کی شرائط پر بات چیت کیلئے تیار ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے جمعہ کے روز افغان رہبر شوریٰ کو امریکی تجاویز سے آگاہ کیام، جس کے بعد شوریٰ نے مذاکرات کیلئے ابتدائی تجاویز پیش کی ہیں اور اس ابتدائی مسودے کی افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ نے بھی منظوری دے دی ہے۔ ابتدائی مسودے کے مطابق طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہوگا۔ امریکا اگر افغان حکومت کے ساتھ صلاح و مشورہ کرنا چاہتا ہے تو طالبان کو کوئی اعتراض نہیں۔ امریکی انخلا کی مدت تین سال سے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہوگی اور اس دوران امریکا تمام اسلحہ افغانستان سے واپس لے جائے گا۔ کسی بھی طالبان مخالف گروپ اور پرائیویٹ ملیشیا کو کوئی اسلحہ نہیں دیا جائے گا۔ افغان طالبان کو حکومت میں شامل کیا جائے گا اور انہیں کئی صوبوں کی گورنر شپ دی جائے گی۔ افغان طالبان ابتدائی طور پر 13 صوبوں کی گورنر شپ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ افغان طالبان امریکا اور ایران کے مسئلے پر غیر جانبدار رہیں گے، جبکہ امریکا، ایران کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان اس نکتے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ امریکا، ایران کے خلاف افغان طالبان کی مدد چاہتا ہے اور اس کے عوض افغان طالبان کے تمام مطالبات ماننے کو تیار ہے۔ تاہم طالبان نے یہ بات سختی سے مسترد کر دی ہے اور مذاکرات میں یہ تحریری نکتہ شامل ہوگا کہ ایران اور امریکا کی ممکنہ محاذ آرائی میں نہ صرف افغان طالبان غیر جانبدار رہیں گے، بلکہ امریکہ کو افغان سرزمین استعمال بھی نہیں کرنے دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی افغان طالبان کے تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور سب سے پہلے انس حقانی کی رہائی عمل میں لائی جائے گی۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے امریکا کی جانب سے بعض تجاویز پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور افغان طالبان کے رہنمائوں کو بتایا ہے کہ حقانی نیٹ ورک 1980ء سے 1990ء تک تقریباً دس سال امریکا کا اتحادی رہا ہے۔ اس لئے وہ جانتے ہیں کہ امریکا کا جب بڑا مقصد پھنس جاتا ہے تو وہ اپنے دشمنوں کو بھی دوست بنا لیتا ہے اور یہ تعلق مطلب نکلنے تک ہی رہتا ہے۔ ایران کی وجہ سے افغان طالبان کی قدر و قیمت اس وقت بڑھ گئی ہے۔ ایران کو تنہا کرنے اور اس کے خلاف ممکنہ کارروائی کیلئے امریکا کو افغان طالبان کی ضرورت ہے۔ اسی لئے قطر دفتر کے سامنے امریکی حکام نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔
دوسری جانب افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان نے اپنی سیاسی جماعت کی تشکیل کیلئے تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ امریکا کے ساتھ ممکنہ معاہدے کے بعد طالبان سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کیلئے تیار ہیں۔ تاہم اس وقت افغان طالبان کے ساتھ ایران، سعودی عرب، امریکا اور روس کے خفیہ رابطے جاری ہیں اور ان ممالک کی کوشش ہے کہ کسی بھی معاہدے کی صورت میں امریکا کو زیادہ فائدہ نہ پہنچے۔ ادھر افغان طالبان نے پاکستان میں نئی حکومت کی تشکیل اور تحریک انصاف کی جیت پر کوئی ردعمل دینے سے اپنے تمام عہدیداروں کو روک دیا ہے اور انہیں انتظار کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔