پہلا حصہ
امت رپورٹ
جماعت اسلامی کراچی کی ناقص منصوبہ بندی پارٹی کو لے ڈوبی۔ جے یو آئی (ف) سے اتحاد پر جماعت اسلامی کے کارکنوں نے انتخابی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیا۔ امیدواروں کے چنائو میں حد درجہ تاخیر بھی ناکامی کا سبب بنی۔ کارکنان کی آرا نظر انداز کرکے کراچی کی قیادت سمیت ضلعی سطع کے ذمہ داران الیکشن لڑنے نکل پڑے۔ شہر بھر میں 10 کروڑ روپے خرچ کر کے صرف ایک صوبائی نشت حاصل کی گئی۔ ناکامی پر ارکان جماعت نے سوشل میڈیا پر ذمہ داران کوآڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا۔ خیرپختون میں متحدہ مجلس عمل کے قیام نے جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھیر دیا۔
جماعت اسلامی کی انتخابی ناکامی کے اسباب جاننے کیلئے ’’امت‘‘ نے رپورٹ کی تیاری کا آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ متحدہ مجلس عمل کے قیام پر کراچی میں کارکنوں کو تحفظات تھے۔ تاہم قیادت کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ کراچی میں مجلس عمل ان کے ووٹوں کو دوگنا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ تحریک انصاف کے بجائے جے یو آئی (ف) اور دیگر دینی جماعتوں کے اتحاد سے خیبر پختون میں فائدہ اٹھا یا جاسکے گا اور یہ خیبرپختون جماعت اسلامی کی بقا کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی اکثریت مذکورہ مجبوری کو ماننے سے انکاری رہی اور مقامی قیادت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتی رہی۔ لیکن قیادت نے کارکنوں کی آرا کو نظر انداز کردیا۔ جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو ملک بھر کی صرف دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں مل پائیں، جن میں ایک کراچی اور دوسری خیبرپختون سے ہے۔ کراچی سے جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کی 21 میں سے 20، جبکہ صوبائی اسمبلی کی 44 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا۔ نتائج کی روشنی میں دیکھا جائے تو این اے 236 پر مجلس عمل کے ٹکٹ پر جمعیت علمائے اسلام کے سومار برفت نے 4 ہزار 61 ووٹ حاصل کیے، جبکہ مذکورہ نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 66 ہزار 623 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ معلوم ہوا ہے کہ یہاں جماعت اسلامی کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی وجہ سے یہاں کی نشستیں جے یو آئی کو دیدی گئیں۔ این اے 237 پر جماعت اسلامی کے محمد اسلام نے 5 ہزار 168 ووٹ حاصل کئے، جبکہ قومی اسمبلی کی اس نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار نے 33 ہزار 280 ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ حلقے کی ذیلی صوبائی نشست پی ایس 88 پر پی پی کے کامیاب امیدوار نے 22 ہزار 561 ووٹ حاصل کیے، جبکہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر جماعت اسلامی کے محمد الطاف پٹنی 2 ہزار 650 ووٹ حاصل کر سکے۔ اسی طرح پی ایس 89 پر ایم ایم کی طرف سے جماعت اسلامی کے ممتاز حسین سہتو نے 4 ہزار 833 ووٹ لیے اور پی پی کے امیدوار نے 23 ہزار 923 ووٹ سے کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 90 پر جے یو آئی کے پیر احسان اللہ نے 3 ہزار 443 ووٹ حاصل کیے۔ پیپلز پارٹی نے 16 ہزار 312 ووٹوں کے ساتھ نشست جیتی۔ یہاں جماعت اسلامی کی تنظیم مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے کارکنان کی وہ ٹیم دستیاب نہ تھی جو الیکشن مہم چلاتی، جس کے نتیجے میں یہاں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مذکورہ نشست پر صوبائی رہنما کو الیکشن لڑوایا گیا۔ جبکہ درحقیقت حلقہ انتخاب میں انہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ این اے 238 پر بھی مجلس عمل کی جانب سے جماعت اسلامی کے محمد اسلام امیدوار تھے، جو 6 ہزار 673 ووٹ حاصل کر سکے۔ جبکہ پیپلز پارٹی 29 ہزار 598 کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی۔ اسی طرح حلقے کی ذیلی صوبائی نشست پی ایس 91 پر مجلس عمل کے ٹکٹ پر جمعیت علمائے اسلام کے مولانا احسان اللہ ٹکروی نے 6 ہزار 928 ووٹ لیے اور پیپلز پارٹی نے 17 ہزار 876 ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ حلقہ انتخاب کے بیشتر علاقوں میں جماعت اسلامی کو کارکنوں کے ساتھ امیدوار کی کمی کا بھی سامنا رہا اور این اے 237 کے امیدوار کو ہی اس نشست پر الیکشن میں کھڑا کیا گیا، جو مجلس عمل کی جماعتوں کے ووٹوں کے ساتھ مذکورہ نتائج نہ دے سکے۔ این اے 239 پر ایم ایم اے کی جانب سے جے یو آئی کے حلیم خان غوری نے 12 ہزار 290 ووٹ حاصل لئے اور اسی نشست سے تحریک انصاف 69 ہزار 147 ووٹوں سے کامیاب رہی۔ حلقے کی ذیلی صوبائی نشست پی ایس 92 پر ایم کیو ایم نے 29 ہزار 889 ووٹ حاصل کیے، جبکہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر جے یو آئی کے فاروق خلیل 5 ہزار 932 ووٹ حاصل کر سکے ۔ دوسری صوبائی نشست پی ایس 93 پر جماعت اسلامی کے توفیق الدین صدیقی نے 8 ہزار 86 ووٹ حاصل کیے، جبکہ 32 ہزار 504 ووٹ کے ساتھ ایم کیو ایم کا امیدوار اس نشست پر کامیاب ہوا۔ اسی طرح پی ایس 98 پر تحریک انصاف نے 14 ہزار 415 ووٹ سے کامیابی حاصل کی اور مجلس عمل کے ٹکٹ پر جے یو آئی کے مولانا عبدالحق عثمانی 5 ہزار 972 ووٹ حاصل کر سکے۔ مذکورہ نشست پر قومی اسمبلی کا ٹکٹ جے یو آئی کو دیا گیا، جس سے جماعت اسلامی کی اس نشست پر برے اثرات مرتب ہوئے۔ یہاں توفیق الدین صدیقی جو یوسی کے وائس چیئرمین بھی ہیں، حلقے کے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آسکتے تھے۔ تاہم جماعت اسلامی نے انہیں تنظیمی ذمہ داریوں میں ہی گھیرے رکھا، جس کے باعث انتخابی اتحاد نے انہیں محض 8 ہزار ووٹوں تک محدود کر دیا۔ این اے240 پر جماعت اسلامی کے عبدالجمیل خان مجلس عمل کے انتخابی نشان پر 19 ہزار 321 ووٹ حاصل کر سکے، جبکہ ایم کیو ایم نے 61 ہزار 165 ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ مذکورہ قومی حلقے کی ذیلی صوبائی نشست پی ایس 94 پر جمعیت علمائے پاکستان کے اسلم پرویز عباسی کو 7 ہزار 614 ووٹ ملے اور ایم کیو ایم نے 32 ہزار 729 ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ دوسری نشست پی ایس 95 پر بھی مجلس عمل سے جمعیت علمائے پاکستان کے امیدوار محمد ایوب عباسی 4 ہزار 47 ووٹ حاصل کر سکے اور ایم کیو ایم 21 ہزار 524 ووٹ لے کر کامیاب رہی۔ اسی طرح پی ایس 96 سے ایم کیو نے 19 ہزار 863 ووٹوں کے ساتھ جیتی۔ یہاں مجلس عمل کے ٹکٹ پر جمعیت علمائے پاکستان کے رجب علی عباسی کو 6 ہزار 109 ووٹ ملے۔ مذکورہ حلقہ انتخاب جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر محمد اسلم مجاہد شہید کا ہے اور ان ہی کے دور میں جماعت اسلامی نے 2001ء کے بلدیاتی انتخابات میں کورنگی اور لانڈھی ٹاؤن میں کامیابی حاصل کی تھی۔ یہاں بھی تنظیم جمود کا شکار ہے اور نئے لوگوں کو آگے لانے سے گریز کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نتائج بھی اچھے نہیں نکلتے۔ معلوم ہوا ہے کہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر موجود امیدواران کی ان کے حلقے میں شہرت جماعت پر اثر انداز ہوئی۔
این اے 241 پر مجلس عمل کی جانب سے جمعیت علمائے پاکستان کے سلیم حسن امیدوار تھے، جن کے کاغذات مسترد ہوئے۔ جبکہ کورنگ کینڈیڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ایم ایم اے کا کوئی امیدوار یہاں موجود نہیں تھا اور اس نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار 26 ہزار 706 ووٹ کے ساتھ کامیاب رہا۔ جبکہ اس کی ذیلی صوبائی نشست پی ایس 97 پر جماعت اسلامی کے منصور فیروز نے 4 ہزار 241 ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ یہ نشست 10 ہزار 473 ووٹوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حصے میں آئی۔ یہ نشست کورنگی ڈھائی نمبر سے شروع ہوکر قیوم آباد پر ختم ہوتی ہے۔ اس نشست پر بھی مضبوط امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے مجلس عمل کو نقصان اٹھانا پڑا اور ایک صوبائی نشست پر سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے منصور فیروز کو انتخاب لڑوایا گیا۔ جماعت اسلامی کے پاس اس حلقے میں کوئی رہنما ہی نہیں، جسے الیکشن میں کھڑا کیا جا سکتا۔ این اے 242 پر جماعت اسلامی کے اسداللہ بھٹو مجلس عمل کے انتخابی نشان پر 8 ہزار 262 ووٹ حاصل کر سکے اور یہاں سے بھی تحریک انصاف نے 27 ہزار 333 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اس حلقے کی صوبائی نشست پی ایس99 پر جے یو آئی کے مولانا غیاث کو 2 ہزار 771 ووٹ پڑے اور تحریک انصاف 6 ہزار 58 ووٹ کے ساتھ کامیاب رہی۔ اسی طرح پی ایس 100 پر تحریک انصاف کے امیدوار نے 17 ہزار 197 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی، جبکہ جماعت اسلامی کے محمد یونس بارائی 6 ہزار 354 ووٹ حاصل کر سکے۔ مذکورہ نشستیں گوٹھوں اور شہری آبادی پر مشتمل ہیں۔ پارٹی کے خیال میں اسداللہ بھٹو ماضی میں کامیاب ہوچکے تھے اور خیال کیا جا رہا تھا کہ اس بار بھی انہیں بھاری اکثریت حاصل ہوگی، لیکن ایسا نہ ہوا۔ دوسری جانب ضلع شرقی کے امیر سابق رکن اسمبلی منتخب ہونے پر ٹکٹ کے درست امیدوار قرار دیئے جارہے تھے، تاہم انہیں سوا چھ ہزار ووٹ ملے۔ یہاں مجلس عمل کے ووٹ بالکل نہ مل سکے اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
این اے 243 پر مجلس عمل کی طرف سے جماعت اسلامی کے اسامہ رضی امیدوار تھے۔ وہ 16 ہزار 214 ووٹ حاصل کر سکے۔ جبکہ تحریک انصاف نے 91 ہزار 358 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ یہاں ذیلی نشست پی ایس 101 پر جمعیت علمائے اسلام سے مجلس عمل کے امیدوار بابر قمر عالم کو 7 ہزار 186 ووٹ پڑے۔ ان کے مد مقابل پی ٹی آئی امیدوار نے 28 ہزار 34 ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح پی ایس 102 پر جماعت اسلامی کے سید محمد قطب 12 ہزار 576 ووٹ حاصل کر سکے اور تحریک انصاف نے یہ نشست بھی 47 ہزار 946 ووٹوں کے ساتھ حاصل کی۔ مذکورہ نشست پر تحریک انصاف کے چیئرمین کے سامنے حد درجہ کمزور امیدوار کو سامنے لایا گیا۔ ان کے بارے میں جماعت اسلامی کے کارکنان بھی کوئی خاص رائے نہیں رکھتے تھے۔ یہاں جماعت اسلامی کے بیشتر گھرانوں نے پی ٹی آئی کو کامیاب کروایا اور جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ صوبائی امیدوار سید قطب ماضی میں اچھے ووٹ لیتے رہے ہیں۔ تاہم انہیں بھی مجلس عمل امیدواروں کی وجہ سے کم ووٹ ملے۔
این اے 244 پر جماعت اسلامی کے زاہد سعید کو 17 ہزار 894 ووٹ ملے، جبکہ پی ٹی آئی 69 ہزار 475 ووٹوں کے ساتھ کامیاب رہی۔ حلقے کی ذیلی صوبائی نشست پی ایس 103 پر جماعت اسلامی کے محمد جنید مکاتی کو 17 ہزار 729 ووٹ ملے اور تحریک انصاف نے 41 ہزار 451 ووٹ حاصل کئے۔ اسی طرح دوسری ذیلی نشست پی ایس 104 پر پیپلز پارٹی نے 27 ہزار 615 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، جبکہ جماعت اسلامی کے ظہور احمد جدون کو 4 ہزار 991 ووٹ ملے۔ مذکورہ نشست کے مقابلے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ جیتی ہوئی نشست ہے، تاہم زاہد سعید کی جماعت اسلامی سے کافی عرصے سے ناراضگی نے انہیں بری طرح ناکام ثابت کیا۔ ان کے امیدوار بننے سے قبل امیر جماعت اسلامی کو ان کے گھر جا کر منانا پڑا۔ وہ ایک فارماسیوٹیکل فرم کے مالک ہیں اور اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ تاہم وہ بھی ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ جنید مکاتی نے صوبائی نشست پر اچھے ووٹ حاصل کیے، تاہم وہ بھی انتخاب نہ جیت سکے۔ وہ یوسی چیئرمین ہیں اور اپنے علاقے کی مقبول شخصیت ہیں۔
این اے 245 پر تحریک انصاف کے امیدوار نے 56 ہزار 664 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور جماعت اسلامی کے سیف الدین ایڈووکیٹ مجلس عمل کے ٹکٹ پر 20 ہزار 142 ووٹ حاصل کر سکے۔ اسی طرح پی ایس105 پر اسلامی تحریک کے سرور علی مجلس عمل کے امیدوار تھے، جنہیں 10 ہزار 962 ووٹ ملے۔ جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار نے 28 ہزار 881 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 106 پر مجلس عمل کے جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے اسلم غوری 8 ہزار 901 ووٹ حاصل کر سکے اور تحریک انصاف نے 25 ہزار 837 ووٹوں کے ساتھ نشست اپنے نام کی۔ مذکورہ نشست پر بھی امیدوار کے انتخاب میں تاخیر نے کمپین کا موقع نہ دیا اور آخری دنوں میں پر زور کمپین بھی انہیں ووٹ دلانے میں کارگر ثابت نہ ہوئی۔ جبکہ جماعت اسلامی کو مذکورہ نشست پر نتائج بھی نہیں دیئے گئے، جس پر دوبارہ گنتی کی درخواست دائر کی جا چکی ہے۔
این اے 246 پر جمعیت علمائے اسلام کے مولانا نورالحق نے مجلس عمل کے ٹکٹ پر 33 ہزار 78 ووٹ حاصل کیے، جبکہ تحریک انصاف نے 52 ہزار 750 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ حلقے کی ذیلی نشست پی ایس107 پر جماعت اسلامی کے فضل الرحمن کو 12 ہزار 512 ووٹ ملے، جبکہ یہ نشست تحریک لبیک نے 26 ہزار 248 ووٹوں کے ساتھ اپنے نام کی۔ تاہم پی ایس 108 پر جماعت اسلامی کے سید عبدالرشید نے 16 ہزار 821 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور ان کے مقابلے میں تحریک انصاف 15 ہزار 577 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ جبکہ پی ایس 109 پر جماعت اسلامی کے فیصل عبدالغفار 8 ہزار 514 ووٹ حاصل کر سکے اور تحریک انصاف نے 25 ہزار 345 ووٹوں کے ساتھ نشست جیتی۔ مذکورہ نشست ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی نشست قرار پائی۔ لیکن یہاں قومی اسمبلی کی نشست پر صوبائی امیدواروں نے ووٹ دلانے میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہ کیا۔ پی ایس 109 کی نشست کسی اتحاد کے نہ ہونے کی وجہ سے جماعت کے گلے پڑ گئی۔ تاہم اچھے امیدوار ہونے پر 8 ہزار ووٹ مل گئے۔ اس نشست پر مساجد اور ائمہ کرام نے بھرپور مہم چلائی۔ صوبائی کی ایک نشست پر تحریک لبیک کی خاموش حمایت بھی
کارگر ثابت ہوئی اور امیدوار شخصیت کی بنا پر کامیاب ہوگئے۔
این اے 247 پر مجلس عمل کے ٹکٹ پر جماعت اسلامی کے محمد حسین محنتی نے 22 ہزار 780 ووٹ حاصل کیے اور تحریک انصاف کے امیدوار نے ان کے مقابلے میں 91 ہزار 20 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ جبکہ مذکورہ حلقے کی ذیلی صوبائی نشست پی ایس110 پر مجلس عمل کی جانب سے جمعیت علمائے پاکستان کے عبدالقادر کو 6 ہزار 692 ووٹ ملے اور تحریک انصاف 38 ہزار 878 ووٹوں کے ساتھ کامیاب رہی۔ اسی طرح دوسری صوبائی نشست پی ایس 111 پر بھی تحریک انصاف نے 30 ہزار 576 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ یہاں سے مجلس عمل کے ٹکٹ پر جماعت اسلامی کے امیدوار محمد سفیان دلاور 8 ہزار 753 ووٹ حاصل کر سکے۔ مذکورہ نشست پہلے امیر کراچی کیلئے رکھی گئی تھی ۔بعد میں ان کے دستبردار ہونے پر نائب امیر صوبہ محمد حسین محنتی کو دی گئی، جو صوبے کے ناظم انتخاب بھی تھے۔ یہاں بھی تنظیم کمزور ہونے اور کارکنوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی۔ محض چند کارکنوں نے آخری دنوں میں بھرپور مہم چلائی، لیکن وہ بے سود ثابت ہوئی۔
این اے 248 پر مجلس عمل نے جمعیت علمائے اسلام کے گل محمد آفریدی کو ٹکٹ دیا، جنہیں 8 ہزار 967 ووٹ ملے اور یہ نشست35 ہزار 124 ووٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے جیتی۔ جبکہ حلقے کی ذیلی صوبائی نشست پی ایس 112 پر پی پی امیدوار نے 11 ہزار 971 ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور جمعیت علمائے اسلام کے نیک امان اللہ کو 3 ہزار 587 ووٹ ملے۔ اسی طرح پی ایس 113 پر جماعت اسلامی کے سجاد احمد 3 ہزار 28 ووٹ حاصل کر سکے اور تحریک انصاف کے امیدوار 18 ہزار 685 ووٹوں کے ساتھ کامیاب قرار پائے۔ مذکورہ نشست پر قاری عثمان نے الیکشن لڑنا تھا۔ تاہم آخری وقت میں مزدور رہنما کو کھڑا کیا گیا، تاکہ مزوروں کے ووٹ بھی مل سکیں۔ لیکن ائمہ کرام اور برادریوں کی جزوی حمایت کے باوجود ووٹ لینے میں ناکام رہے۔ یہاں بھی جماعت کے بعض گھرانوں نے جے یو آئی سے اتحاد کی وجہ سے ووٹ نہ دیا۔
این اے 249 پر تحریک انصاف نے 35 ہزار 344 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی، جبکہ جماعت اسلامی کے سید عطاء اللہ شاہ 10 ہزار 307 ووٹ لے سکے۔ یہاں پی ایس 115 پر جے یو آئی کے حافظ محمد نعیم کو 6 ہزار227 ووٹ ملے اور تحریک لبیک نے یہ نشست 21 ہزار591 ووٹوں کے ساتھ جیتی۔ جبکہ پی ایس 116 پر جے یو آئی کے مولانا عمر صادق 5 ہزار 306 ووٹ حاصل کر سکے اور یہ نشست بھی تحریک انصاف نے 9 ہزار 966 ووٹوں کے ساتھ جیتی۔ مذکورہ حلقے میں جماعت اسلامی کے بیشتر کارکن مجلس عمل کے قیام کے خلاف تھے اور کسی صورت جے یو آئی امیدواروں کیلئے الیکشن کمپین چلانے کو تیار نہ ہوئے۔ مرکزی نظم نے مذکورہ نشست پر نواز لیگ سے سیٹ ایڈجسمنٹ کی کوشش کی، لیکن جے یو آئی امیدواروں نے بیٹھنے سے انکار کر دیا اور مجبوراً جماعت اسلامی کو بھی الیکشن لڑنا پڑا۔ کارکن نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمپین بھی کوئی خاص نہ چل سکی اور نتیجتاً جماعت اسلامی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
این اے 250 پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کو 18 ہزار 915 ووٹ ملے اور تحریک انصاف 30 ہزار 52 ووٹوں کے ساتھ کامیاب رہی۔ ذیلی نشست پی ایس 114 پر جے یو آئی کے قاری محمد عثمان امیدوار تھے، جو 8 ہزار 864 ووٹ حاصل کر سکے اور تحریک انصاف نے یہ نشست بھی 13 ہزار 321 ووٹوں کے ساتھ حاصل کی۔ پی ایس 119 پر جماعت اسلامی کے عطا ربی کو 7 ہزار 514 ووٹ ملے اور ایم کیو ایم کے امیدوار نے 23 ہزار 532 ووٹوں کے ساتھ نشست جیتی۔ اسی طرح حلقے کی تیسری صوبائی نشست پی ایس 120 پرجماعت اسلامی کے عبدالرزاق 10 ہزار 87 ووٹ حاصل کر سکے اور تحریک انصاف نے 14 ہزار 561 ووٹوں کے ساتھ یہ نشست بھی حاصل کی۔ جماعت اسلامی ضلع غربی کے امیر کا خیال تھا کہ حافظ نعیم الرحمن یہاں سے اچھے ووٹ لے سکیں گے۔ تاہم یہاں بھی اندرونی اختلافات، جے یو آئی سے اتحاد ہار کا سبب بنا۔ مذکورہ نشست پر صوبائی امیدوار عبدالرزاق کے خلاف پارٹی میں ہی بغاوت نظر آئی، جس کے اثرات ووٹ پر پڑے۔
این اے 251 پر مجلس عمل کے ٹکٹ پر جماعت اسلامی کے محمد لئیق خان نے 21 ہزار 812 ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ ایم کیو ایم نے 56 ہزار 888 ووٹوں کے ساتھ نشست حاصل کی۔ پی ایس117 پر جماعت اسلامی کے مدثر حسین انصاری نے 13 ہزار 961 ووٹ لیے اور ایم کیو ایم نے یہ نشست 25 ہزار 441 ووٹوں سے جیتی۔ اسی طرح پی ایس 118 پر مجلس عمل سے جے یو آئی کے سید حیدر شاہ کو 6 ہزار 938 ووٹ ملے، جس کے مقابلے میں ایم کیو ایم نے 18 ہزار 491 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ معلوم ہوا ہے کہ یہاں جے یو آئی نے متحدہ کے سابق چیئرمین کو مجلس عمل کا ٹکٹ دلایا تھا، جس سے جماعت اسلامی کے کارکنان نالاں رہے اور بیشتر نے انتخابی مہم میں حصہ بھی نہ لیا۔ ایک اطلاع کے مطابق مذکورہ حلقے سے جے یو آئی سے اتحاد کے باعث 10 ارکان نے استعفیٰ بھی دیا تھا۔
این اے 252 پر تحریک انصاف نے 21 ہزار 65 ووٹ حاصل کیے، جبکہ جماعت اسلامی کے عبداالمجید خاصخیلی 10 ہزار 74 ووٹ حاصل کر سکے۔ اسی طرح مذکورہ حلقے میں پی ایس121 پر جمعیت علمائے اسلام کے حبیب الرزاق مجلس عمل کے امیدوار تھے، جو 4 ہزار 606 ووٹ حاصل کر سکے اور ایم کیو ایم نے نشست 9 ہزار 936 ووٹ کے ساتھ حاصل کی۔ پی ایس122 پر تحریک انصاف نے 6 ہزار 241 ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور جماعت اسلامی کے سید رضوان شاہ 3 ہزار 826 ووٹ لے سکے۔ مذکورہ حلقہ شہری کم اور دیہی آبادی پر زیادہ مشتمل تھا۔ یہاں گوٹھوں میں کام نہ ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی اور مجلس عمل کے امیدواروں کو ووٹ نہیں ملے۔ جماعت نے اس حلقے میں رضوان شاہ کو سامنے لانے میں تاخیر کی، ورنہ اچھے نتائج مل سکتے تھے۔
این اے 253 پر جماعت اسلامی کے منعم ظفر خان نے مجلس عمل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور 9 ہزار 357 ووٹ حاصل کر سکے۔ جبکہ ایم کیو ایم نے 52 ہزار 426 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 123 پر بھی جماعت اسلامی کے محمد یوسف مجلس عمل کے امیدوار تھے۔ انہیں 6 ہزار 519 ووٹ ملے۔ ایم کیو ایم نے 28 ہزار 161 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 124 پر بھی ایم کیو ایم نے 26 ہزار 162 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور جماعت اسلامی کے خالد صدیقی 4 ہزار 138 ووٹ حاصل کر سکے۔ اس نشست پر ٹیم نہ ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں بھی تنظیمی ذمہ داروں کو بطور کینڈیڈیٹ سامنے لایا گیا، جس میں قومی کے امیدوار امیر ضلع اور صوبائی امیدوار قیم ضلع تھے۔
این اے 254 پر تحریک انصاف نے 75 ہزار 702 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی، جس کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے راشد نسیم 26 ہزار 373 ووٹ حاصل کر سکے۔ یہاں پی ایس125 پر بھی تحریک انصاف کے امیدوار نے 30 ہزار 687 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور مجلس عمل کی جانب سے جے یو آئی کے عبدالباقی نے 15 ہزار 853 ووٹ لئے۔ پی ایس 126 پر بھی جماعت اسلامی کے فاروق نعمت اللہ کے 12 ہزار 420 ووٹوں کے مقابلے میں تحریک انصاف نے 30 ہزار 337 ووٹ حاصل کیے۔ مذکورہ نشست پر امیدوار کے چناؤ میں تاخیراور امیدوار کی حلقہ سے مکمل غیر حاضری ناکامی کا سبب بنی۔ راشد نسیم نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ہونے کی وجہ سے زیادہ تر وقت لاہور میں ہوتے ہیں اور انہیں حلقے میں جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ وہ محض الیکشن کے دنوں میں ہی نظر آئے۔
این اے 255 پر مجلس عمل کے جمعیت علمائے پاکستان سے امیدوار مستقیم قریشی کو 11 ہزار 323 ووٹ ملے اور ایم کیو ایم 59 ہزار 807 ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی۔ پی ایس 127 پر بھی ایم کیو ایم نے 29 ہزار 939 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی اور یہاں بھی جے یو پی کے محمد صدیق راٹھور 3 ہزار 676 ووٹ لے سکے۔ اسی طرح پی ایس128 پر مجلس عمل کے ٹکٹ سے جماعت اسلامی کے سید وجیہ حسن 8 ہزار 871 ووٹ حاصل کر سکے اور ایم کیو ایم نے یہ نشست بھی 29 ہزار 285 ووٹوں سے جیتی۔ مذکورہ نشست پر جماعت اسلامی کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جماعت اسلامی کے کارکن مجلس عمل کے قیام پر پارٹی قیادت سے نالاں تھے۔
این اے 256 پر مجلس عمل کے امیدوار اور جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کو 22 ہزار 364 ووٹ ملے۔ جبکہ تحریک انصاف 89 ہزار 850 ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی۔ جبکہ پی ایس 129 پر جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کو 14 ہزار 246 ووٹ ملے اور تحریک انصاف نے 39 ہزار 101 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح پی ایس 130 پر بھی تحریک انصاف نے 38 ہزار 353 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ جبکہ جماعت اسلامی کے نسیم صدیقی 10 ہزار 768 ووٹ لے سکے۔ مذکورہ نشست پر بھی امیدواران تاخیر سے نامزد کئے گئے، جس کی وجہ سے نقصان ہوا۔ ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی صوبائی امیر تھے اور پورے صوبے میں الیکشن سرگرمیوں میں متحرک رہے، جس کی وجہ سے اپنے حلقہ انتخاب میں ان کیلئے زیادہ وقت نکالنا ممکن نہ رہا۔ امیر کراچی صوبائی نشست سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ وہ بھی پورے کراچی میں الیکشن سرگرمیوں کی وجہ سے وقت نہ دے سکے، جس سے پورے حلقہ انتخاب پر برے اثرات مرتب ہوئے۔ معلوم ہوا ہے کہ پی ایس 130 کے امیدوار حافظ نعیم الرحمان کو کم ووٹ پڑنا خود جماعت اسلامی کیلئے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ (جاری ہے)