نیویارک ( مانیٹرنگ ڈیسک )امریکی حکومت کے نمائندوں اور افغان طالبان کے مابین ہونے والی خفیہ ملاقات سے ’مثبت‘ اشارے ملے ہیں،جبکہ امریکہ نے افغانستان میں فوجی اڈے رکھنے کا مطالبہ کردیا،عیدالاضحیٰ سے طویل جنگ بندی بھی متوقع ہے۔تفصیلات کے مطابق غیرملکی خبرایجنسی نے قطرمیں طالبان اورامریکہ کے براہ راست مذاکرات کی اندرونی کہانی حاصل کی ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہاگیاہے کہ فریقین کی ملاقات مثبت رہی۔ اس خفیہ ملاقات میں شریک افغان طالبان کے ایک نمائندے نے خبرایجنسی کو بتایا کہ دوحہ کے ایک ہوٹل میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران بات چیت انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئی،اس بات چیت میں افغان حکومت کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا،اسے امن مذاکرات قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم اسے بامقصد بات چیت کا آغاز کہہ سکتے ہیں۔مذکورہ نمائندے کے مطابق یہ گفتگوطالبان قیادت کی منظوری سے ہوئی تھی ۔اس کاکہناتھاکہ فریقین نے طالبان کو2صوبوں میں آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت دینے کی تجویزپربھی گفت وشنیدکی جسے قبل ازیں صدراشرف غنی مستردکرچکے ہیں،اس کے علاوہ افغان حکومت میں طالبان کی شرکت پر بھی غور کیا گیا۔اس طالبان نمائندے کا کہناتھاکہ گفتگوکے دوران امریکہ نے صرف افغانستان میں فوجی اڈے رکھنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔ایک اورطالبان نمائندے نے بتایاکہ اس سلسلے میں اب تک 3ملاقاتیں ہوچکی ہیں جن میں یہ عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیاگیا،سب سے پہلے قیدیوں کاتبادلہ کیاجائے گاجس کے بعدقیام امن کے لیے دیگرمعاملات پر بات ہوگی تاہم امریکہ پر ان مذاکرات کے دوران ایک بارپھر واضح کردیاگیاکہ امن کے لیے غیرملکی فوج کا افغانستان سے نکلنا ضروری ہے۔ایک اورذریعے کے مطابق مذاکرات کے دوران امریکہ نے عیدالاضحیٰ پر بھی جنگ بندی کے لیے زوردیا چنانچہ عیدسے ایک طویل جنگ بندی متوقع ہے۔جبکہ عیدسے پہلے مذاکرات کا ایک اوردورہوسکتاہے۔واضح رہے کہ قطر کے دارالحکومت میں طالبان کا نیم سرکاری دفتر بھی قائم ہے۔طالبان کا اصرار تھا کہ کابل حکومت کا کوئی بھی اہلکار اس مذاکراتی عمل میں شامل نہیں ہو گا۔ ابھی دو ہفتے قبل ہی نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اعلی سفارت کاروں کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کرنے کے راستے تلاش کرنے کا کہا تھا۔اس سے قبل واشنگٹن حکومت ہمیشہ سے یہ کہتی آئی ہے کہ طالبان کو کابل حکومت سے بات چیت کرنی چاہیے اور امن عمل کا آغاز لازماً افغان سربراہی میں ہی ہونا چاہیے۔