جسٹس شوکت کے خلاف ریفرنس کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد

0

اسلام آباد( اخترصدیقی/نمائندہ خصوصی) سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف ریفرنس کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی جبکہ جسٹس شوکت صدیقی نے ریکارڈفراہمی کی درخواست خارج کرنے کااقدام چیلنج کرنے کے لیے آئینی درخواست تیارکرلی جورواں ہفتے سپریم کورٹ میں دائر کیے جانے کاامکان ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف کھلی عدالت میں اختیارات سے تجاوزکے معاملے پر انکوائری دوسرے روزبھی جاری رکھی۔ اس دوران وکیل صفائی حامد خان نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی کی درخواستیں مستردکرنیوالاکل کاحکم مل گیا ہے ،استغاثہ بیان کے بعد اگر دستاویزات بطور شہادت پیش کرنا چاہتا ہے تودرخواست دے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ریفرنس مجھ سے پہلے مولوی انوار الحق نے تیار کیا، حامد خان نے کہا کہ کونسل آرڈر میں ترمیم کرے اور انور گوپانگ کے بیان حلفی کا حوالہ شامل کرے ،کونسل کے آرڈر میں استغاثہ کے گواہ انور گوپانگ کے بیان حلفی کا حوالہ نہیں دیا گیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ خود میری کچی پنسل سے تصحیح کر دیں،حامد خان نے انکار میں دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا یہ میرا کام نہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ استغاثہ کے گواہ سے متعلق آپ کی بات ایک دوسرے آرڈر میں شامل ہے ،،سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے کہا کہ نئی حکومت آ رہی ہے عہدے پر کام جاری نہیں رکھنا چاہتا۔کونسل نے اے جی کوہدایت کی کہ گواہ انور علی گوپانگ کے پیش کردہ دستاویز مناسب طریقے سے لے کر آئیں۔ 600 دستاویز دیں لے کر نشاندہی کرکے دیں کہ کن دستاویز پر ان کا انحصار کریں گے۔جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب کیا ممکن کے کہ آپ دستاویز کی مناسب طریقے سے نشاندہی کریں۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نشاندہی کریں تو پیغام بھیج دیجیئے گا کورٹ میں آجائینگے۔ کہا جاتا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے، ہم انصاف کے تقاضے ہر ممکن طور پر پورے کریں گے، جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ نے کہاکہ یہ دستاویزات اس وقت کے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے تیار کی تھی، اگر مولوی انوار الحق کے آنے تک انتظار کر لیں تو بہتر ہو گا، چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب مولوی انوار الحق صاحب کب تک آجائیں گے۔ اے جی نے بتایاکہ وہ بیرون ملک ہیں اگست کے پہلے ہفتے تک آجائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ حامد خان صاحب کا بھی اصرار تھا کہ سماعت ملتوی کی جائے اس پر حامدخان نے کہاکہ ان کے موکل نے 9اگست تا23اگست جسٹس شوکت صدیقی برطانیہ میں 9اگست کوجوڈیشل کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانیہ جائیں گے وہاں کی ہل یونیورسٹی مانچسٹرمیں ہونے والی جوڈیشل کانفرنس میں شرکت کریں گے اس کے علاوہ پاکستانی وکلاء سے بھی ملاقاتین کریں گے ۔جسٹس شوکت صدیقی کادورہ 22اگست تک جاری رہے گا،23جولائی کوان کی واپسی ہوگی ۔ اس لیے جوبھی تاریخ دینی ہے اس کاخیال رکھاجائے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کاخیال رکھاجائیگاکونسل مولوی انوار الحق سے رابطہ کرکے نئی تاریخ دے دے گی ۔دوسری جانب جسٹس شوکت صدیقی نے کونسل کے 30 جولائی کے حکم نامے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی تیاری مکمل کرلی ۔ذرائع نے’’ امت‘‘ کوبتایاہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کی جانب سے ان کے وکیل حامدخان نے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت 30 جولائی کے سپریم جوڈیشل کونسل کے حکم نامے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیاہے جس میں انھوں نے موقف اختیار کیاہے کہ کونسل کاریکارڈکی فراہمی کے لیے دائردرخواستوں کوخارج کرناآئین کے آرٹیکل 10اے کی خلاف ورزی ہے جس میں شفاف ٹرائل کی ضمانت دی گئی ہے ۔جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف دائرریفرنس کاتقاضاہے کہ ان کووہ سب معلومات فراہم کی جائیں جس کے بارے میں الزامات عائدکیے گئے ہیں ۔درخواست میں حامدخان ایڈووکیٹ نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیس کابھی حوالہ دیا۔حامدخان ایڈووکیٹ نے’’ امت ‘‘کوبتایاکہ جسٹس شوکت صدیقی کے معاملے میں کونسل کے حکم نامے کوچیلنج کیاہے ، آئین کے آرٹیکل 10اے ،19اے اور آرٹیکل 25جس میں برابری کی ضمانت دی گئی ہے اور معلومات تک رسائی اور شفاف ٹرائل کی بات کی گئی ہے ہم نے ان شقوں کے تحت ریلیف مانگاہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ادارے ہمیں ریکارڈفراہم کریں تاکہ ہم جسٹس شوکت صدیقی کی بے گناہی کوثابت کرسکیں اگر کسی اور جج نے بھی یہ کام کیاہواہے توپھر اس کے حوالے سے بھی توکونسل کوکوئی حکم نامہ جاری کرناچاہیے ۔ہم نے استدعاکی ہے کہ کونسل کی جانب سے سی ڈی اے ،پی ڈبلیوڈی سمیت دیگر درخواستوں کوخارج کردیاگیاتھاجس میں ریکارڈکی فراہمی کاکہاگیاتھا۔جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف لگائے الزامات پر پوری تحقیقات ہونی چاہئیں اس لیے ہم نے آئینی درخواست دائرکی ہے ۔سپریم کورٹ پہلے بھی اس طرح کے معاملات میں آئینی درخواستوں کی سماعت کرچکی ہے جس میں کئی اہم معاملات شامل ہیں سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری کوبھی اسی آرٹیکل کے تحت ریلیف دیاگیااور ان کی بحالی کی گئی اور ریفرنس کی کارروائی بھی روکی گئی تھی ۔صورت حال یہ ہے کہ ریفرنس میں جوالزامات لگائے گئے ہیں ان کوپرکھنے کے لیے اس کے سواکیاطریقہ ہوسکتاہے کہ ہم تمام ریکارڈکاجائزہ لے لیں اور کونسل بھی دیکھ لے کہ کہان سے اختیارات کی خلاف ورزی کی گئی ہے ۔ اختیارات سے تجاوزکامعاملہ میں ریکارڈسب بتادے گی آئین کے تحت معلومات تک رسائی میرے موکل کاحق ہے جب تک معلومات موجودنہیں ہوں گی ہم جرح نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں اس میں کوئی کامیابی مل سکے گی اس لیے بہترہوگاکہ ہمیں ریکارڈتک رسائی دی جائے۔دوسرایہ کہ آئین کے آرٹیکل 25میں سب کے ساتھ برابری کاسلوک کرنے کی بھی ضمانت دی گئی ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس میں بھی ایساہی ہو۔درخواست میں استدعاکی ہے کہ کونسل نے جن دودرخواستوں کوبحال کرنے اور ان کے مطابق سی ڈی اے اور دیگر اداروں سے ریکارڈفراہم کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More