عباس ثاقب
میری یہ ساری توقعات اور پیش بندیاں غیر معمولی حد تک کارگر ثابت ہوئیں۔ جیپ کے کھلے پھاٹک کے قریب پہنچتے پہنچتے مجھے ایک دراز قامت کارندہ چوکی سے اتر کر اپنی طرف بڑھتا نظر آیا۔ اس نے کمبل شانوں پر لپیٹ رکھا تھا اور اپنی شاٹ گن بے فکری سے دائیں ہاتھ میں لاٹھی کی طرح تھام رکھی تھی۔ اس نے لالٹین یا لیمپ ساتھ لانے کی زحمت نہیں کی تھی۔ میں نے پھاٹک سے چند گز پہلے جیپ روک دی اور ایک نظر پہرے دار پر اور دوسری نظر سامنے احاطے میں لگ بھگ پچاس گز کے فاصلے پر بنی حویلی پر ڈالی۔ حویلی میں مجھے کوئی ہلچل نظر نہیں آئی۔ البتہ پہرے دار کچھ تذبذب میں دکھائی دیا۔ غالباً نیم تاریکی کے باوجود اس نے بھانپ لیا تھا کہ جیپ میں صرف ایک بندہ موجود ہے، جبکہ میری خاموشی بھی اس کے لیے غیر متوقع ہوگی۔
میں نے اسے اضطراب کی کیفیت میں قریب آنے کا موقع دیا اور پھر اچانک شاٹ گن کی نال اس کے سینے پر رکھ دی ’’بندوق دھرتی تے سٹ دے، نئیں تے…‘‘۔ میرے لہجے میں موجود قطعیت محسوس کر کے وہ شاٹ گن زمین پر رکھنے کے لیے جھکا۔ میں نے اسے دوبارہ سیدھا ہونے کا موقع نہیں دیا۔ بندوق کا بٹ اس کی کنپٹی سے ٹکرایا اور وہ بغیر کوئی آواز نکالے زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
اس کی طرف سے مطمئن ہوتے ہی میں نے ایک بار پھر جلدی سے حویلی کا جائزہ لیا۔ بکرم سنگھ کی چوپال کے دالان میں تاریکی تھی۔ لہٰذا مہمان خانہ بھی نظروں سے اوجھل تھا۔ جہاں میں موجود تھا وہاں سے زنان خانے کی صورتِ حال کا پتا لگانا مشکل تھا۔ البتہ مجھے پختہ یقین تھا کہ پریتو بھابھی اپنی معتمد جسی سمیت جاگ رہی ہوگی اور سندری کا بھی ایسی ہنگامہ خیز رات میں چین کی نیند سونا قرین قیاس نہیں تھا۔
مجھے خدشہ تھا کہ پھاٹک کی چوکی پر تعینات پہرے دار کے علاوہ بھی بکرم سنگھ کے کارندے اپنے مالک کی راہ تک رہے ہوں گے۔ مجھے بکرم سنگھ کے خصوصی کارندے پورن کا نظر نہ آنا بھی مضطرب کر رہا تھا۔ اسے تو اس ساری کارروائی میں سب سے آگے ہونا چاہیے تھا۔ مسلح کارندوں کے علاوہ بھینسوں کے باڑے میں گوالوں کی موجودگی بھی یقینی تھی۔
مجھے بلا تاخیر اپنے آئندہ قدم کا فیصلہ کرنا تھا۔ جیپ اندر لے جاؤں؟ لیکن مجھے تو باقی حویلی والوںکی نظروں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے۔ جیپ کی احاطے میں آمد تو نیند میں ڈوبے لوگوں کو بھی بیدار کر دے گی۔ لیکن پھاٹک کے عین سامنے موجود بکرم سنگھ کی جیپ بھی تو کسی بھی لمحے باقی حویلی والوں کو متوجہ کر سکتی ہے۔
میں نے جلدی سے جیپ ریورس کرکے پھاٹک سے ایک طرف ہٹائی اور بے سدھ پڑے پہرے دارکو بھی گھسیٹ کر جیپ کے قریب ڈال دیا۔ اس کی شاٹ گن میں پہلے ہی جیپ کے پچھلے حصے میں رکھ چکا تھا۔
میں نے مزید چند لمحے حویلی کے احاطے کا جائزہ لینے میں صرف کیے اور کوئی نقل و حرکت نہ پاکر میں بے آواز دوڑتا ہوا حویلی کے مردان خانے کی طرف بڑھا۔ اس دوران میری نظریں تیزی سے احاطے کے مختلف حصوں کا جائزہ لے رہی تھیں اور شاٹ گن فائر کرنے کے لیے بالکل تیار تھی۔ میرا دل ہیجان کی شدت سے تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ بس چند گز کا فاصلہ خیریت سے طے کر کے میں مہمان خانے تک پہنچ جاؤں۔ اس کے بعد تو بس نقشے سمیٹ کر فرار ہونا باقی رہ جائے گا۔
مجھے سب سے زیادہ خطرہ اچھی خاصی فروزاں چاندنی سے لگ رہا تھا، جو کافی فاصلے سے مجھے نظروں میں لاسکتی تھی۔ لیکن خوش قسمتی سے مردان خانے کے دالان میں داخل ہونے تک کسی نے مجھے نہ ٹوکا۔ اچانک گہری تاریکی میں آ نے سے مجھے فوری طور پر کچھ نظر نہ آیا۔ وقت ضائع کرنے کے بجائے میں اندازے سے مہمان خانے کی طرف بڑھا اور باآسانی دروازے تک پہنچ گیا، جس میں باہر سے صرف کنڈی چڑھی ہوئی تھی۔ میں نے دروازہ عقب میں بند کر کے کنڈی لگادی اور ٹارچ روشن کر کے بے تابی سے اس دیوار گیر الماری کی طرف بڑھا۔ جہاں ایک دبیز کتاب کے صفحات کے درمیان میں نے اپنے بنائے ہوئے نقشے چھپائے تھے اور پھر وہ کتاب باقی کتابوں اور رسالوں کے نیچے چھپادی تھی۔
الماری کھولتے ہوئے میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ یہ دیکھ کر بے اختیار میرے سینے سے اطمینان بھری سانس خارج ہوئی کہ وہاں موجود کتابیں بالکل اسی ترتیب سے رکھی دکھائی دے رہی تھیں، جیسے میں انہیں چھوڑ کر گیا تھا۔ میں نے جلدی جلدی کتابیں گرائیں اور اپنی مطلوبہ کتاب پر نظر پڑتے ہی مجھے اپنی بینائی بڑھتی محسوس ہوئی۔ میں نے بے تابی سے کتاب کو کھولا اور ایک ایک کرکے تمام چھوٹے نقشے اور پھر ان کی مدد سے بنایا ہوا ہلواڑا ایئر بیس کا بڑا نقشہ نکال کر اپنی جیبوں میں ٹھونس لیا۔ میرا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا۔ بالآخر میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تھا۔
میں نے زمین پر گری اور ابتر الماری کو اسی حالت میں چھوڑا اور ٹارچ سنبھال کر مہمان خانے کے دروازے کی طرف بڑھا۔ تاہم کنڈی کھولنے سے پہلے میں نے ٹارچ بند کر دی۔ بے آواز کنڈی کھول کر میں نے دالان میں قدم رکھا۔ سامنے پھاٹک چوپٹ کھلا نظر آرہا تھا، جس کے باہر بکرم سنگھ کی جیپ میری منتظر تھی۔ میں جلدی سے آگے بڑھا، لیکن دوسرا قدم اٹھاتے ہی اچانک تیز روشنی نے میری آنکھیں چندھیا دیں اور پھر کوئی ٹھوس دھاتی چیز مجھے اپنی پشت میں کھبتی محسوس ہوئی ’’بندوق سُٹ دے مسلّیا… ہُن تُوں موت نوں دھوکا نئیں دے سکدا!‘‘۔
شدید ذہنی جھٹکے کے باوجود مجھے پریتو بھابھی کی آواز پہچاننے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭