تحریر : محمد قیصر چوہان
پاکستان کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ یہاں کے شمالی علاقہ جات اور گلگت بلتستان اپنی خوبصور تی اور رعنائی میں لاثانی ہیںجس کے سبب ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کا مرکزہیں۔ یہاں کے سر بہ فلک پہاڑی چوٹیاں،چاندی کی مانند چمکتے گلیشئر اورجمے ہوئے برفانی تودوں سے چھاج اْمنڈتے چشمے ، انہی چشموں کے لبوں پر رنگ برنگے پھولوں کی پرتبسم کلیاں ، سر سبز و شاداب کھیت ، لہلہاتی فصلیں، تازہ اور قدرتی غذا ، مہمان نواز اور شرافت و دیانت کے امین لوگ ، روایتی طعام ، ثقافتی ورثے کی امانت داری ، قدیم انسانی تہذیب اور طرز تعمیر کے آئینہ دار قلعے ، خوشگوار موسم ، بد ھ مت کی پرانی یادیں ، صوفیائے کرام کے معجزوں اور روایتی کھیل چگان بازی کے علاوہ دنیا کے تین پہاڑی سلسلوں، کوہ ہندو کش ، کوہ ہمالیہ اور قراقرم کا اس منطق میں آکر ایک دوسرے سے گلے ملنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے سب سے اونچی سطح مرتفع کے حامل صحرا ’’دیوسائی‘‘سیاحوں کیلئے ایک خاص کشش رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سالانہ لاکھوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح سیر و تفریح سے لفط اندوز ہوتے ہیں۔اس علاقے کی تمام تر خوبیاں اور حسن ایک طرف لیکن دیو سائی کی دلکشی ایک طرف۔ دیو سائی سے ہوکر گزرنے والے کا دل بار بار یہی کہتا ہے کہ اگر کسی نے اب تک دیوسائی نہیں دیکھا ہے تو اْس نے اپنی زندگی کے ساتھ بڑی نا انصافی کی ہے۔
دیو سائی دو الفاظ دیو اور سائی کا مجموعہ ہے جن کے معنی دیوؤں کا سایہ ہے۔دیو سائی گلگت بلتستان میں ضلع سکردو اور ضلع استور کے درمیان ایک بلند اور وسیع سطح مرتفع کا نام ہے۔دیوسائی نایاب بھورے ریچھوں کا مسکن اور اپنی خوبصور تی اور رعنائی میں لاثانی ہیں۔کوہ ہمالیہ میں قدرت کا حسین شاہکار دیو سائی دنیا کا بلند ترین اور اپنی نوعیت کا واحد پہاڑی میدان ہے جو کسی بھی مقام پر چار ہزار میٹر سے کم بلند نہیں۔ اس علاقے کو عموماً برف کی پراسرار اور خاموش پریاں اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہیں تاہم جولائی، اگست اور ستمبر کے مہینے میں حیران کن طور پر اس تین ہزار مربع میل کے قدرے ہموار میدان میں انواع واقسام کے جنگلی پھول اور جڑی بوٹیاں اْگ آتی ہیں۔ بلتستان میں بولی جانے والی شینا زبان میں دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے کیونکہ ایک روایت کے مطابق دیوسایہ نامی ایک دیو کا یہ مسکن ہے اسی نسبت سے اسے دیوسائی کہتے ہیں۔دیوسائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500َفٹ بلند ہے اس کی بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔ دیوسائی کا کل رقبہ 3000 مربع کلو میٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے جب پگھلتی ہے توتو دریائے سندھ کے کل پانی کا 5فی صد حصہ ہوتی ہے۔ ان پانیوں کو محفوظ کرنے کیلئے صد پارہ جھیل پر ایک بند زیر تعمیر ہے۔دیوسائی پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک راستہ اسکردو سے ہے اور دوسرا استور سے۔ اسکردو سے دیوسائی 35 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے میں صد پارہ جھیل اور صد پارہ گائوں کے راستے دیوسائی پہنچا جا سکتا ہے ۔ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ نسل کا خرگوش، تبتی بھیڑیا ،لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، اڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ ہجرتی پرندے جن میں گولڈن ایگل، داڑھی والا عقاب اور فیلکن قابل ذکر ہیں پائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ یہاں تقریباً 150 اقسام کے قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے محض 10تا15 مقامی لوگ مختلف بیماریوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔شیو سر جھیل ،میں ہر طرح کے آبی پرندوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ یہاں استور اور اسکردو کے لوگوں کے ٹینٹ ہوٹل ہیں سیاحوں کے ان جگہوں پر رات گزارنے کا اصل مقصد جنگلی ریچھوں کا دلکش نظارہ کرنا ہے جو اکثر چاندنی رات میں کالا پانی اور بڑا پانی ( دو پہاڑی نالوں کے نام ) میں مچھلیوں کے شکار کیلئے اپنے کچھار سے نکل کر آتے ہیں اور ساری ساری رات مچھلیوں کا شکار کر کے خوب سیر ہو کر صبح کی اذان کے ساتھ اپنے بلوں کی جانب چلے جاتے ہیں۔شیو سر جھیل کا پانی یخ بستہ اور اس قدرشفاف ہے کہ اس کے نیچے موجود رنگ برنگے پتھر ۔رنگ بررنگے مینڈک ، ٹراوٹ کے علاوہ مچھلیوں کی کئی ایک اقسام صاف نظر آتی ہیں ۔
1993ء میں حکومت کی جانب سے دیوسائی کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ قدرتی حیات اور حسن سے مالا مال یہ خطہ پاکستان کے چند مشہور ترین نیشنل پارکس میں شامل ہے۔سرسبز ڈھلوان اور اور ان کے پس منظر میں، چرتے ہوئے خوبصورت یاک اور لمبے بال والے بکرے بہت خوبصورت نظر آے ہیں۔ دیوسائی کے وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں، تو طرح طرح کے رنگین پھول اور ان میں اکثر مقام پر اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازووں کو سینے پر باندھے مارموٹ آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ دیوسائی نیشنل پارک میں ہزاروں کی تعداد میں ادویاتی جڑی بوٹیاں، انواع واقسام کے جنگلی پھول اور جنگلی حیات بھی پائے جاتے ہیں جبکہ ہمالین بھورے ریچھ کی موجودگی پارک کی اہمیت کو اور بڑھا دیتی ہے۔یہاں خوبصورت وادیوں کے بیچ نانگا پربت کی فلک بوس اور برف سے ڈھکی چوٹی دل کو چھو لینے والا نظارہ پیش کرتی ہے۔برف کی پراسرار اور خاموش پریوں کا مسکن، دیوسائی میں زندگی مسکراتی اور فضا گدگداتی ہے، قدرتی حسن ایسا کہ سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑ لے اور نظارے ایسے کہ پلک جھپکنے کو جی نہ چاہے۔
دیوسائی کی سیر کا بہترین وقت جولائی سے لیکر اوائل ستمبر تک ہے اس کے بعد دیوسائی شدید سردیوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔دیوسائی کے راستے پر ایک دو میٹر آگے دیوسائی نیشنل پارک کی چوکی ہے۔ یہاں بھی مسافروں کے ناموں اور گاڑیوں کا اندراج ہوتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ دیوسائی نیشنل پارک کے ملازمین دیوسائی کے قدرتی حسن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے ایک منٹ کے لیکچر کے ساتھ تمام مسافروں کو ایک ایک شاپنگ بیگ بھی دے دیتے ہیں تاکہ کھانے پینے کی بچی کھچی ٹکڑیوں کو انہی شاپنگ بیگ میں ڈال کے اپنے ساتھ واپس لے جایا جائے تاکہ دیوسائی کا قدرتی حسن اور جمال اپنے دیکھنے والوں کو ہر دم دعوت نظارہ دیتے رہے۔یہاں سے رخصتی کے بعد دیوسائی کا وسیع و عریض میدان شروع ہو جاتا ہے، آغاز میں ہی بہت خوبصورت جھیل شیو سر آتی ہے ۔ بڑے پانی کے پل کو عبور کریں، تو شیوسر جھیل تک ایک پتھریلی سڑک کھلے میدان کی وسعت میں چلتی جاتی ہے۔ شیوسر جھیل کا مقامی زبان میں مطلب ‘اندھی جھیل’ ہے۔ یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ہے۔ اس کے گہرے نیلے پانی اپنے پس منظر میں برف پوش پہاڑیوں اور پیش منظر میں سرسبز گھاس اور رنگ برنگے جنگلی پھولوں کے ساتھ موسمِ گرما میں ایسا نظارہ پیش کرتے ہیں کہ آنکھ حیرت زدہ پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہے۔موسم صاف ہو تو جھیل کے عقب میں قاتل پہاڑ نانگاپربت کی برف پوش چوٹی نظر آتی ہے اور جھیل اگر پرسکون ہو تو نانگاپربت کا عکس پانیوں میں یوں گھلتا دِکھتا ہے جیسے کسی نے نِیل میں سفیدی گھول دی ہو۔ گرد و نواح کی کسی پہاڑی پر چڑھ کر دیکھیں تو شیوسر جھیل کے نیلاہٹ پوری آب و تاب کے ساتھ انسانی دل نما شکل میں نظر آتی ہے۔ یہ جھیل دیوسائی کا دل ہے۔شیو سر جھیل کا خوب صورت نظارہ آپ کبھی بھلا نہیں پائیں گے اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ پتا نہیں چلتا کہ جھیل کا صاف شفاف پانی کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے جھیل کے گرد چکر لگانے کیلئے ایک دن درکار ہے۔ چلم سے آگے تقریباً دس کلومیٹر تک پکی سڑک پر ایک چڑھائی چڑھنی پڑتی ہے۔ پندرہ کلومیٹر کے فاصلے تک کہیں کہیں وقتی موسمی کچے گھروں کی عمارتیں نظر آتیں ہیں لیکن پندرہ کلومیٹر کے بعد یہاں کوئی انسانی آبادی نظر نہیں آتی۔
بہت سے خانہ بدوش قبائل سردیاں ختم ہوتے ہی اپنے مال مویشی اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ دیو سائی کی طرف چل پڑتے ہیں اور کئی ہفتوں کا سفر کرکے دیو سائی پہنچتے ہیں اور پھر ساری گرمیاں یہاں گزارتے ہیں یہاں 150 کے قریب جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں یہ لوگ ان کو جمع کرتے رہتے ہیں اور ان سے بہت سا روپیہ کماتے ہیں اس کے علاوہ اپنی گائے بھینس۔ بھیڑ بکریوں کے دودھ سے دیسی گھی بنا کر اس کو سکردو میں فروخت کرتے ہیں آپ کو زرد رنگ کا دیسی گھی سکردو کی دوکانوں سے آسانی سے مل جائے گا بہت سی رقم ان کو مال مویشی فروخت کرکے بھی حاصل ہو جاتی ہے جس کے بعد اکثر یہ لوگ سکردو میں اپنے خاندان کے افراد کی شادیاں کرتے ہیں سال کے چارماہ تک دیو سائی میں رونق رہتی ہے اور یہ بوسیدہ کپڑے پہننے لوگ اس خوبصورت اور سرسبز میدان کے مکین رہتے ہیں ایک بہت وسیع لان اور سرسبز چراگاہیں ان کا گھر ہوتی ہیں ۔
دیوسائی میں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ڑالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔ یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کی وجہ سے انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہوائوں، طوفانوں، اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ دیوسائی میں عمیق خاموشی اور صدیوں کی تنہائی خیمہ زن ہے۔ دیوسائی میں تین جگہوں پر ٹنٹ ہوٹل ہیں جن میں ’’شیو سر جھیل ‘‘،’’ کالا پانی‘‘ اور ’’بڑا پانی‘‘ مشہور ہیں ان ہوٹلوں میں طعام اور قیام کی سہولت موجود ہے ۔دیوسائی کے میدان میں جگہ جگہ بہتے نالے اور ان میں موجود سنہری ٹراؤٹ مچھلیاں، بیک ڈراپ میں 5000 میٹر بلند برف پوش پہاڑ، انہیں پہاڑوں میں مقیم جنگلی حیات،آسمان سے گزرتے بادلوں کے بڑے بڑے ٹکرے جو اتنی کم بلندی سے گزرتے معلوم ہوتے ہیں کہ لگنے لگتا ہے جیسے آپ پر سایہ کرنے کو قدرت نے چھتری بنا رکھی ہے، اور ان ٹکڑوں کے بیچ محوِ پرواز ہمالیائی گولڈن ایگلز، فضا میں پھیلی ایک انجان مہک ساری فضا کو معطر کیے رکھتی ہے یہی دیوسائی کا حسن ہے۔
پاکستان کے محکمہ جنگلی حیات کا عملہ قدرتی اور نایاب جنگلی حیات باالخصوص ہمالین بھورے کے تحفظ کیلئے سخت سردی کے دوران بھی دیوسائی میں موجود ہوتا ہے۔برف کی چادر میں دیو سائی کی خوبصورتی اور زیادہ نکھر جاتی ہے۔ دیو سائی تک سیاحوں کی رسائی آسان بنائی جائے تو یہاں سیاحت فروغ پا سکتی ہے۔ (بشکریہ ماہنامہ غازی کراچی)
٭٭٭٭٭