گردیز کی امام بارگاہ میں خودکش بمباروں نے پہلے فائرنگ کی

0

محمد قاسم
افغانستان کے مشرقی صوبہ پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں خودکش حملہ آوروں نے امام بارگاہ کو نشانہ بنایا، جس میں تادم تحریر بیسیوں افراد کے جاں بحق اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے صوبائی دارالحکومت گردیز کے علاقے بلند منزل میں واقع خواجہ حسن مسجد میں سینکڑوں لوگ مختلف علاقوں سے آتے ہیں۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جب وہ باہر نکل رہے تھے تو اچانک دو افراد فائرنگ کرتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ مسلح افراد نے پہلے نمازیوں پر گولیاں چلائیں، جس سے بھگدڑ مچ گئی اور مسجد میں نماز کیلئے آنے والے کئی بچے کچلے گئے۔ بعد ازاں اس بھگدڑ کے دوران جب حملہ آوروں کے پاس رائونڈز ختم ہو گئے تو دونوں نے یکے بعد دیگرے خود کو مسجد کے اندر اڑا لیا جس کے نتیجے میں درجنوں لوگ شہید ہو گئے اور خواجہ حسن مسجد خون سے رنگ گئی۔ ذرائع کے مطابق اہل تشیع کیلئے گردیز میں دیگر مساجد نہ ہونے کی وجہ سے خواجہ حسن نہ صرف پرانی مسجد ہے، بلکہ اس میں زیادہ سے زیادہ اور دور دراز علاقوں سے لوگ نماز کے لئے آتے ہیں۔ تادم تحریر کسی بھی گروپ نے واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ تاہم مقامی صحافی حسن پکتیا وال نے ’’امت‘‘ کو فون پر بتایا کہ پہلے فائرنگ کی آواز آئی اور اس کے چند لمحوں بعد پہلا دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے کے بعد بھی فائرنگ جاری رہی اور پھر دوسرا دھماکہ ہوگیا۔ پہلے ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے اڑایا، پھر دوسرے نے۔ انہوں نے بتایا کہ گردیز کے ہیڈ کوارٹر اسپتال میں 70 سے زائد زخمیوں کو لایا گیا ہے، جس میں بہت سے زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، جبکہ کئی زخمیوں نے ان کے سامنے دم توڑا۔ حسن کا کہنا تھا کہ دھماکے میں بیشتر شہدا کی لاشیں ناقابل شناخت ہیں۔ مسجد کی دیواروں پر انسانی گوشت چپک گیا ہے، جبکہ مسجد کے قالین اور دیواریں خون سے تر ہو گئی ہیں۔ مسجد میں فائرنگ اور دھماکوں کے ساتھ ہی افراتفری پھیل گئی تھی، جس کی وجہ سے کئی بچے بھی کچلے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی پولیس کے مطابق اب تک تیس افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ ساٹھ سے زائد زخمی ہیں، تاہم یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ مشرقی افغانستان میں کسی امام بارگاہ پر یہ پہلا حملہ ہے۔ اس سے قبل شمالی افغانستان اور دارالحکومت کابل میں امام بارگاہوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ تاہم مشرقی افغانستان میں روسی مداخلت اور اس کے بعد بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کبھی نہیں رہی۔ افغانستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی ہمیشہ بگرام، کابل، قندھار اور شمالی افغانستان کے مزار شریف اور دیگر شہروں میں ہوتی رہی ہے۔ لیکن مشرقی افغانستان میں قبائلی لڑائیوں کے علاوہ فرقہ وارانہ لڑائیاں نہیں تھیں۔ اب پہلی بار مشرقی افغانستان میں اہل تشیع کی مسجد کو نشانہ بنایاگیا ہے۔ صوبائی وزیر صحت ولایت خان کے مطابق ابتدا میں اسپتال تک ساٹھ زخمی اور چار جاں بحق افراد کو لایا گیا۔ تاہم بعد میں یہ تعداد بڑھ گئی۔ اسپتال میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد بیس سے تجاوز کر گئی ہے۔ ولایت خان کے مطابق دیگر اسپتالوں میں بھی زخمی بھیجے گئے ہیں جبکہ گردیز میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ محکمہ پولیس کے ترجمان سردار تبسم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس واقعے کے بعد وہاں پہنچ گئی تھی۔ تاہم اس مسجد کو کبھی کوئی دھمکی نہیں ملی تھی، اس لئے اس کی خاص سیکورٹی نہیں تھی اور پھر مشرقی افغانستان میں کبھی اس طرح کے واقعات بھی سامنے نہیں آئے تھے۔ علاقے کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔ مقامی اخبار نویس آزاد مینگل کی جانب سے اپنے سوشل میڈیا پیج پر کہا گیا ہے کہ میڈیا کو جائے وقوعہ تک نہیں جانے دیا جارہا اور ایمبولینس گاڑیوں کے ذریعے زخمیوں کو نکالا جارہا ہے۔ دھماکے کی خبر پھیلتے ہی قرب و جوار سے لوگوں کی بڑی تعداد نے خواجہ حسن امام بارگاہ کا رخ کرلیا تھا اور وہاں وہ اپنے پیاروں کی شناخت کرتے رہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پولیس اور فوج کے آنے سے امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے اور بعض زخمی بروقت طبی امداد نہ ملنے پر جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ چونکہ کابل میں ایمبولینس کے ذریعے ہونے والے خودکش حملے کے بعد ایمبولینسوں کو جائے وقوعہ سے دور کھڑے ہونے کی ہدایت کی جاتی ہے، لہٰذا اسی سبب زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں مشکلات کا سامنا رہا اور زخمیوں کو ایمبولینس تک لے جانے میں بھی امدادی کارکنوں کو مشکلات پیش آئیں۔ مشرقی افغانستان میں یہ پہلی فرقہ واارانہ کارروائی ہے جس کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More