وجیہ احمدصدیقی
ممکنہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل کیلئے انا کا مسئلہ بن گئی ہے۔ اختر مینگل نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے بنی گالہ جاکر ملاقات سے انکار کردیا ہے اور کہا کہ اگر عمران خان کو ملاقات کرنی ہے تو بلوچستان ہاوس آکر مجھ سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ نومنتخب رکن قومی وصوبائی اسمبلی اختر مینگل کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ تحریک انصاف اختر مینگل کو وہ کچھ نہیں دے سکتی جس کے وہ خواہش مند ہیں۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں ان کی تقریباً 7 نشستیں ہیں۔ تحریک انصاف کا بلوچستان میں کوئی نمایاں کردار نہیں ہے۔ جبکہ تحریک انصاف نے ان کی قومی اسمبلی میں حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی، جس میں ناکامی ہوئی۔ ادھر اختر مینگل تحریک انصاف کی حمایت کے بدلے بلوچستان حکومت میں حصہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے تحریک انصاف سے بلوچستان میں تین وزارتوں اور ایک مشیر کی مسند مانگی ہے۔ ان کا زیادہ زور وزارت داخلہ پر ہے، لیکن تحریک انصاف صوبے میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)کی حمایت سے محروم نہیں ہونا چاہتی کیونکہ بلوچستان میں (باپ) کی اکثریت ہے اور انہیں حکومت بنانے کیلئے اختر مینگل جیسے پیچیدہ شخص کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری جانب اختر مینگل اپوزیشن کی اے پی سی میں بھی شریک نہیں ہوئے ، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ اب انہیں کچھ نہیں دے سکتیں۔ انہوں نے اپنے 6 مطالبات تو تحریک انصاف کو پہنچادیئے ہیں لیکن ان کا اصل مسئلہ بلوچستان حکومت میں کسی نہ کسی صورت شراکت ہے۔ اختر مینگل نے نمائندہ امت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں کہ بلوچستان میں کسی کو وزیر اعلیٰ نامزد کردیا جائے اور ہم آنکھیں بند کرکے حمایت کریں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جے یو آئی ہماری اتحادی ہے۔ حکومت یا اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ مل کر کریں گے۔ لیکن اختر مینگل تحریک انصاف کے ذریعے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)کو سفارش کروانا چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت کو بھی صوبائی حکومت میں شامل کیا جائے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے پروگرام ’’میٹ دی پریس‘‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ صرف 1970 کے انتخابات شفاف تھے۔ انہوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کوبھی ہدف تنقید بنایا، لیکن تحریک انصاف کے خلاف براہ راست کچھ کہنے سے گریز کیا۔ ان کے 6 مطالبات ہیں، جس میں پہلا مطالبہ یہ ہے کہ بلوچستان میں سیاسی مداخلت بند کی جائے ۔ دوسرا اور تیسرا مطالبہ بالترتیب سی پیک میں بلوچستان کو حصہ دلانے اور لاپتہ افراد کی جلد سے جلد بازیابی کا ہے۔ چوتھے مطالبے میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے وسائل کو استعمال کرنے کا اختیار دیا جائے ۔ پانچواں مطالبہ یہ ہے کہ وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے 6 فیصد کوٹے کی پابندی کی جائے اور افغان مہاجرین کو بلوچستان سے باعزت طور پر وطن واپس بھیجا جائے۔ تحریک انصاف ملازمت کے کوٹے کے علاوہ اختر مینگل کے ان مطالبات میں سے کسی کو بھی پورا نہیں کرسکتی ہے۔ پی ٹی آئی تو دیگر مطالبات کے بارے میں کوئی یقین دہانی بھی نہیں کراسکتی۔
اب اختر مینگل کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان میں جے یو آئی کے ساتھ مل کر کوئی نئی حکمت عملی بنائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اختر مینگل پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے کہ عمران خان پر دبائو ڈال کر بلوچستان کی حکومت میں اپنا حصہ پالیں گے، لیکن عمران خان تو خود بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)کے احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ تاہم اختر مینگل نے تاحال وفاق کی سطح پر اپوزیشن میں بیٹھنے کا بھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ حالانکہ ان کی قومی اسمبلی میں 3 نشستیں ہیں اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)کی 4 نشستیں ہیں۔ تحریک انصاف ان کی حمایت کو ضائع نہیں کرنا چاہے گی۔ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے حکومت میں شمولیت کی دعوت دینے کیلئے بلوچستان ہاؤس اسلام آباد آنے والے تحریک انصاف کے وفد کے ارکان نعیم الحق اور یار محمد رندکو 6 نکاتی مطالبات تھما دیئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات وہی ہیں جو گزشتہ حکومتوں سے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحاد میں شمولیت کی دعوت پر پی ٹی آئی کا مشکور ہوں۔ جب تک بنیادی مسائل حل نہیںہوتے بلوچستان ترقی نہیں کرسکتا۔ اس موقع پر نعیم الحق نے کہا تھا کہ خواہش ہے سردار اختر مینگل عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات کریں اور اپنے مطالبات براہ راست ان کے سامنے رکھیں۔ مگر اختر مینگل اس لئے تیار نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف وفد میں یار محمد رند بھی تھے اور ان کا اختر مینگل کی پارٹی کے سنیئر رہنما لشکری رئیسانی کے خاندان کے ساتھ تنازعہ چل رہا ہے۔ لہذا اختر مینگل لشکری رئیسانی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ واضح رہے کہ یار محمد رند پر الزام ہے کہ انہوں نے 1986 میں اسلم رئیسانی پر حملہ کیا، جس میں اسلم رئیسانی زخمی ہوگئے تھے۔ جبکہ ان کے والد سردار غوث بخش رئیسانی انتقال کرگئے تھے، جو بلوچستان کے گورنر اور وفاقی وزیر بھی رہ چکے تھے۔ اب اختر مینگل کیلئے مشکل تھا کہ وہ عمران خان کے پاس ایسی صورت میں جائیں جہاں ایک طرف یار محمد رند بیٹھے ہوں اور دوسری طرف لشکری رئیسانی ہوں۔ واضح رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل پونے چار سال تک خود ساختہ طور پر جلاوطن رہے، جس کے بعد وہ 7 اپریل 2013 کو پاکستان واپس آئے تھے۔ ان کی آمد سے قبل ہی ان کے 6 نکات ملک بھر میں نئی بحث کا آغاز کرچکے تھے۔ بی این پی کی جانب سے 2 اکتوبر 2012 کو یہ مطالبات سپریم کورٹ میں بھی جمع کرائے گئے تھے۔ وطن واپسی کے بعد اختر مینگل خود بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ اختر مینگل کی جانب سے پی ٹی آئی سے سی پیک اور اے پی سی کے مطالبات پر عملدرآمد کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔٭
٭٭٭٭٭