قربان انجم
تہذیب و تمدن میں دنیا اکیسویں صدی میں پہنچ گئی، مگر کس قدر المناک حقیقت ہے کہ بھارت میں عورتوں کی جان، عزت اور ناموس بری طرح غیر محفوظ ہے۔ بھارت میں عورت جبر و ظلم کا شکار ہے اور اس حوالے سے عالمی جائزوں کے مطابق بھارت دنیا کا خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔ بھارت جہاں بین الاقوامی رائے عامہ کو اپنی نام نہاد جمہوریت کے حوالے سے گمراہ کررہا ہے، وہیں حالیہ تین عالمی رپورٹیں سامنے آنے پر اسے بے حد ندامت کا سامنا ہے۔ ان رپورٹوں میں سب سے پہلے امریکی سی آئی اے کی طرف سے بھارت میں ہندو فرقہ پرست تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی شاخوں اور ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو اس کے بھیانک کردار و عمل کی وجہ سے دہشت گردی کی لسٹ میں ڈالے جانے کی رپورٹ شائع ہوئی۔ دوسری رپورٹ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی بربریت پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے جاری ہوئی، جبکہ تیسری عالمی رپورٹ ایک برطانوی ادارے کی طرف سے جاری کی گئی، جس پر بھارت کو خواتین کے لیے انتہائی غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا۔
25 جون 2018ء کو دنیا بھر میں خواتین کے حقوق سے متعلق ایک عالمی ادارے ’’تھامسن رائٹرز فائونڈیشن‘‘ کی سروے رپورٹ سامنے آئی، جس کے مطابق بھارت دنیا میں خواتین کے لیے خطرناک ترین ملک قرار پایا۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت کا سرپرست امریکہ بہادر جنسی تشدد کے معاملے میں تیسرے نمبر پر قرار دیا گیا۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں اولاً خواتین کے خلاف جنسی تشدد اور حوازادیوں کو ہراساں کئے جانے کے واقعات بہت تیزی سے رونما ہو رہے ہیں، ثانیاً ثقافت اور قبائلی رسوم و رواج کی وجہ سے خواتین کو درپیش خطرات میں حددرجہ اضافہ ہو چکا ہے، ثالثاً خواتین کو جنسی مزدوری، گھریلو غلامی میں دھکیلے جانے کے واقعات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ مزید برآں خواتین کی صحت سے بے حد اغماض برتا جا رہا ہے۔ خواتین میں زچگی کے دوران موت، پیدائش اور ایچ آئی وی/ایڈز پر عدم کنٹرول کے حوالے سے مجرمانہ کردار اپنایا جا رہا ہے۔ بھارتی ناریاں اس طرح جہنم کی نار کی نذر ہو رہی ہیں کہ انہیں ملازمتوں میں بدترین امتیازی سلوک کا سامنا ہے، حالانکہ 2012ء کے اواخر میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک چلتی ہوئی بس میں میڈیکل کی ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی بداخلاقی (GANG RAPE) کے بعد ریپ سے متعلق قوانین سخت کر دیئے گئے تھے، لیکن اس کے باوجود بھارتی خواتین کے ساتھ ریپ، میرینل ریپ، جنسی تشدد اور جنسی ہراسانی روز افزوں ہے۔ بچیوں کو رحم مادر ہی میں قتل کیا جا رہا ہے، جس کی کوئی روک تھام نہیں کی جا رہی۔ برطانیہ میں کام کرنے والے ادارے ’’تھامسن رائٹرز فائونڈیشن‘‘ کے تازہ سروے کے مطابق خواتین کے لیے کام کرنے والے سات سو سے زائد ماہرین سے رجوع کیا گیا تھا، جن میں چھ سو افراد نے بھارتی خاتون کی زبوں حالی کے بارے میں جوابات سے ہر دردمند انسان کے دل پر لرزہ طاری کر دیا۔
توہم پرستی کی بنیاد پر استوار ہندو دھرم میں ایک مشہور ہندی کہاوت ہے کہ لڑکی کی پیدائش گھر میں لکشمی (دولت) لانے کا سبب بنتی ہے، جبکہ بھارت میں صنف نازک کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے، وہ اس کی صریحاً نفی کر رہا ہے۔ چار بازوئوں والی لکشمی دیوی ہندو اساطیرنامے کا ایک اہم کردار ہے۔ توہم پرستی میں مبتلا ہندو دھرم میں لکشمی دیوی کو دولت کی دیوی مانا جاتا ہے۔ ثروت مندی اور خوش بختی کی علامت لکشمی دیوی کا بت انہی خصوصیات کی عکاسی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر لکشمی دیوی کے زیادہ تر بتوں کے ہاتھ میں کنول کا پھول اور سونا چھلکتا ہوا کاسہ نظر آتا ہے۔ جھوٹی بنیاد ہی سہی، لیکن اس پس منظر میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارتی معاشرے میں عورت کو عزت و افتخار کا باعث سمجھا جاتا۔ ایک ایسے معاشرے میں جو عالمی سطح پر اثرورسوخ اور خوش حالی میں آگے سے آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں اس دیوی کو اتنا بلند مقام حاصل ہے، وہاں حقیقی معنوں میں خواتین کی صورت حال انتہائی افسوسناک ہے۔ بھارت میں عورتوں کو امتیازی سلوک بالخصوص گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے قتل کا بھی عام چلن ہے۔ اسی حوالے سے تھامسن رائٹرز فائونڈیشن کے نئے سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا کی چوٹی کی 19 بڑی معیشتوں کے مقابلے میں بھارت میں خواتین کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک بدترین سلوک قرار پاتا ہے، جس کو نرم سے نرم الفاظ میں انتہائی افسوسناک کہا جا سکتا ہے۔
بھارت میں عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے کوائف اکٹھا کرنے اور انہیں ویب سائٹ MAPS4AD.COM پر شائع کرنے والے شمیر پدن یارے دل کا کہنا ہے کہ بھارتی عورت کا جبر و ظلم کے دور میں زندہ رہ جانا ایک معجزے سے کم نہیں۔ لڑکی کی زندگی کو ماں کے پیٹ ہی میں خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ لڑکوں کی خواہش رکھنے والوں کو جس وقت پتہ چلتا ہے کہ لڑکی جنم لینے والی ہے، اس وقت اسے اسقاط کے ذریعے سے قتل کروا دیا جاتا ہے۔ شمیر پدن یارے دل کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو بہت چھوٹی عمر ہی سے امتیازی سلوک، جنسی زیادتی اور کم عمری میں جبری شادی جیسے ہولناک مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ شادی کے بعد عورتوں کو جہیز کی خاطر قتل کر دیا جاتا ہے، اگر وہ ان تمام زیادتیوں کے باوجود بچ جائے اور اسے بیوگی کی زندگی گزارنا پڑے تو اسے نہ صرف امتیازی سلوک کا شکار بنایا جاتا ہے، بلکہ اسے تمام تر حقوق، بالخصوص وراثت اور جائیداد سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق امتیازی سلوک کا شکار سب سے زیادہ شمالی بھارت کی خواتین کو بنایا جاتا ہے۔ جہاں اکثریت کے اذہان پر اب بھی گھسے پٹے خیالات کا غلبہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں حقیر اور کم تر درجے کی حامل ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی خواتین کو گھر اور بچوں کی دیکھ بھال تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔
ھارت میںعورتوں کی آبروریزی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے نیشنل کرائم بیورو (این سی آربی) نے پیر کو یہاں جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں ایک گھنٹے میں دو عورتوں کو آبرورزی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں ہرسال لاکھوں عورتوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم بیشتر واقعات میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوتا اور بیشتر لوگ معاشرتی مسائل کے باعث پولیس کے سامنے مقدمات درج کرانے سے گھبراتے ہیں۔ ’’بھارت میں جرائم ‘‘ کے موضوع پر تیا کی جانے والی رپورٹ میں نیشنل کرائم بیورو نے کہا ہے کہ درج ہونے والے 20737 مقدمات میں سے 19188 کیسوں میں ملزمان کی شناحت کے باوجود زیادہ تر کے خلاف کارروائی کو آگے نہیں بڑھایا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی 11984 عورتوں کی عمریں 18 سے 30 برس کے درمیان تھیں۔ بھارت کے نیشنل کرائم بیورو کا کہنا ہے کہ گذشتہ دہائی کے دوران دلت ذات سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔خواتین کو عصمت ریزی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے ریاست مدھیہ پردیش سرفہرست ہے
سیکولرازم اور مساوی حقوق کے نام نہاد علمبردار بھارت میں گزشتہ چند برسوں میں پیش آنے والے والی جنسی زیادتی کے پے در پے واقعات نے بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔بھارتی خواتین کو عوامی جگہوں، خاندانوں اور دفتروں میں ہراساں اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانا ایک معمول ہے ہر جگہ عدم تحفظ کی فضاء ہے۔ عوامی مقامات ہوں یا پھر پبلک ٹرانسپورٹ، عورتوں کو کہیں بھی جنسی طور پر ہراساں کر لیا جاتا ہے یا پھر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بھارتی معاشرے میں خواتین کے ساتھ روا رکھے گئے غیر انسان سلوک کے ردعمل میں بھارت میں سیکڑوں ہندو لڑکیوں نے سماجی اور اخلاقی گراوٹ سے گھبرا کر اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد میں عافیت تلاش کرنا شروع کردی ہے۔ ہندوئوں میں ذات پات کی تقسیم کی رو سے برہمن اور دلت کے درمیان کھینچی گئی لکیر کے مطابق نیچ (نچلی) ذات قرار پانے ولے دلت ہندوئوں سے تعلق رکھنے والی سیکڑوں لڑکیوں نے مسلمان لڑکوں کو اپنا جیون ساتھی چننے کے لیے دینی شخصیات کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح بھارت میں متعصب ہندوئوں کی پیداکردہ غیر فطری اونچ نیچ کے باعث لڑکے باعزت زندگی گزارنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں، جبکہ لڑکیوں نے سماجی ظلم، ناروا سلوک اور اونچ نیچ سے نجات کا راستہ مسلمان ہونے میں تلاش کیا ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد وہ ہندوئوں سے تو شادی نہیں کر سکتیں۔ اس لیے مسلمان ہی کو جیون ساتھی بنانا پڑتا ہے۔ بھارت کی دہشت گرد تنظیم (جو حکمران بی جے پی کی اصل ہے) اس پر سیخ پا ہے۔ ہندو انتہا پسندوں نے اسے طالبان کے اثرات اور مالی مدد کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ہندوئوں کا دعویٰ ہے کہ مسلمان ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے کے لیے عراقی طالبان پیسہ پھینک رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ محبت کی شادی نہیں بلکہ سازش ہے، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
آر ایس ایس کے دبائو پر بھارتی خفیہ ایجنسی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے جنوبی ریاست کیرالہ میں ہندو لڑکیوں کے قبول اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ شادیوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے، جس میں کم از کم 86 لڑکیوں کو ان کے گھروں سے اٹھانے کے بعد بند کمرے میں گھنٹوں تک تفتیش کی گئی، مگر مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔ انہیں اپنی توقع کے مطابق کسی سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ اس کے باوجود مسلمان لڑکوں کو اٹھانے اور پوچھ گچھ کے جبری واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔
بھارتی فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگوں، سول سوسائٹی ، اور معتبر صحافتی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ بھارت میں خواتین کی عزت محفوظ نہیں ہے حکومت کو اس حوالے سے قوانین بدلنے چاہئیں۔عالمی ادارے کی جانب سے بھارت کو عورتوں پر تشدد کے حوالے سے نمبرون قرار دینا ہر بھارتی کے لئے شرم ناک ہے مگر ساتھ ہی یہ تلخ حقیقت ہے کہ ایسا ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے۔ مگر کسی کو اس کی فکر نہیں ، یہاں تک کہ مودی سرکار بھی اس طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ ممبئی جیسے شہر میں بھی خواتین زیادہ غیر محفوظ ہیں ۔جبکہ پسماندہ علاقوں میں تو صورت حال زیادہ خراب ہے حکمرانوں کو خواتین کو تحفظ دینے کیلئے نئے قوانین بنانا ہوں گے۔اب تو یہ حال ہے کہ بھارتی پولیس اور فوج کے عہدیدار و اہلکار ریپ کیسوں کی اعانت کرتے ہیں۔ زیادہ تر ریپ کیس پولیس اہلکاروں کے زیر سایہ ہو رہے ہیں۔اگر حکومت واقعی عورتوں کو جنسی تشدد سے بچانا چاہتی ہے تو اسے تمام قوانین کو خلوص اور سختی سے نافذ کرنے ہوں گے۔ اس میں سماجی، اقتصادی اور قانونی اصلاحات کرنی ہوں گی اور مساوات اور جمہوری سماج کے قیام کی طرف قدم بڑھانے ہوں گے۔
٭
٭٭٭٭٭