سپر ہائی وے منڈی انتظامیہ سہولیات فراہم کرنے میں ناکام

0

اقبال اعوان
کراچی کی سپرہائی وے مویشی منڈی کی انتظامیہ بیوپاریوں اور خریداروں کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اب تک اس منڈی میں سوا لاکھ سے زائد جانور لائے جا چکے ہیں اور مزید تین لاکھ جانوروں کی آمد متوقع ہے۔ لیکن کراچی کے داخلی راستوں پر جانوروں کی سرکاری طور پر طبی جانچ پڑتال کا کوئی سلسلہ شروع نہیں کیا گیا۔ صرف سپر ہائی وے پر جانوروں کا ایک سرکاری طبی کیمپ لگا ہے، جس کی وجہ سے بیشتر بیوپاری اپنے بیمار جانوروں کا نجی علاج کرانے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح جانوروں اور انسانوں کو دیئے جانے والے پانی کا معاملہ بھی حل نہیں ہو سکا ہے۔ آلودہ پانی پینے سے قربانی کے جانور اور بیوپاری بیمار پڑ رہے ہیں۔ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ بارشوں کا سلسلہ سر پر کھڑا ہے۔ اس دوران ان کے مسائل اور اخراجات مزید بڑھ جائیں گے۔ جبکہ جانوروں اور انسانوں کے کھانے پینے کی اشیا نہ صرف ناقص ہیں، بلکہ بازار سے دگنی قیمت پر فروخت کی جا رہی ہیں۔ بیوپاریوں کے اخراجات بڑھنے کے باعث جانوروں کی قیمتیں گزشتہ سال سے 40 فیصد زائد بڑھی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب جانور مہنگا ہونے کی وجہ سے شہری خریداری سے گریز کر رہے ہیں کہ ابھی مزید جانور کراچی آرہا ہے۔ جبکہ 14 اگست تک سیاسی صورت حال واضح ہو جائے گی اور یوم پاکستان بھی گزر جائے گا۔ اس کے بعد جانوروں کی قیمتیں کسی ایک سطح پر آئیں گی۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں لگنے والی دیگر مویشی منڈیاں نسبتاً سستی ہیں۔ اس منڈی میں وی آئی پی جانور لینے والے یا تفریح کی غرض سے آنے والے زیادہ ہیں۔
سپر ہائی وے سہراب گوٹھ پر لگنے والی مویشی منڈی کی انتظامیہ دعوے کر رہی ہے کہ وی آئی پی جانوروں کیلئے اس کی جانب سے ایئر کنڈیشنڈ ہال بنا دیا گیا ہے، جبکہ رات کو تفریح کیلئے آنے والے نوجوانوں کیلئے وی آئی پی کیمپ لگائے گئے ہیں۔ جہاں مہنگے اور خوب صورت جانور کیٹ واک کرتے نظر آتے ہیں اور بچے تفریح کرتے ہیں۔ تاہم شہریوں کا کہنا ہے کہ سپر ہائی وے مویشی منڈی لگانے کا مقصد کراچی کے ہر طبقے کے شہریوں کو باآسانی بقرعید کیلئے جانور مہیا کرنا تھا۔ یہاں آنے والے بیوپاریوں کو زیادہ سہولتیں اور انٹری یا دیگر فیس کم وصول کرنا تھا، تاہم ایسا نہیں ہے۔ اس بار بھی نااہل انتظامیہ نے مویشی منڈی کو مسائل کا گڑھ بنا دیا ہے۔ نہ بیوپاری خوش ہیں اور نہ خریداروں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ بڑے بڑے دعوے کئے گئے تھے کہ خریداروں کو مفت پارکنگ ملے گی۔ شہری صحت مند اور چیک شدہ جانور خریدیں گے۔ منڈی آنے والے شہری جراثیموں سے محفوظ رہیں گے۔ لیکن یہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سپر ہائی وے منڈی میں روزانہ 5 سے 7 ہزار جانور لایا جا رہا ہے۔ اب تک یہ تعداد ایک لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ اکثریت بڑے جانور گائے اور بیل کی ہے۔ اسی طرح دو ہزار اونٹ اور دس ہزار بکرے، دنبے اور بھیڑیں بھی آچکی ہیں۔ بڑے جانور کی انٹری فیس 1400 روپے اور چھوٹے جانور کی فیس 800 روپے لے کر منڈی میں چھوڑا جارہا ہے۔ ہائی ویز پر کے ایم سی اور دیگر ادارے فی جانور 150 روپے لے کر آنے دے رہے ہیں۔ جانوروں کی جانچ پڑتال کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
سپر ہائی وے مویشی منڈی میں سندھ حکومت کے شعبے ویٹرنری اینڈ لائیو اسٹاک کی جانب سے ایک کیمپ لگایا گیا ہے، جہاں تین شفٹوں میں تین ڈاکٹر تھوڑی بہت دوائیاں لے کر بیٹھتے ہیں۔ انچارج ڈاکٹر خالد کا کہنا تھا کہ ’’جتنا بجٹ ہے، اتنی دوائیاں لائے ہیں۔ جو یہاں جانور لے کر آتا ہے، اسی کو دیکھتے ہیں۔ زیادہ توجہ وی آئی پی بلاکس کے تاجروں پر ہے‘‘۔ جانوروں کے نجی ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا تھا کہ ’’سب سے زیادہ مسئلہ جانوروں اور انسانوں کو منڈی میں ملنے والا پینے کا پانی ہے۔ انسانوں اور جانوروں کو آلودہ پانی سے ڈائریا اور پیٹ میں درد ہو رہا ہے‘‘۔ منڈی میں آئے ایک تاجر رحیم داد کا کہنا تھا کہ ’’جانور بیمار ہو رہے ہیں، جبکہ بیوپاری بھی بیمار ہیں۔ اس بار سیزن مشکلات میں گزرے گا کہ خریدار اب تک نہیں آئے ہیں۔ جانور زیادہ دن منڈی میں رہیں گے تو اخراجات بھی بڑھیں گے۔ پانی کا 40 لیٹر والا ڈبہ 80 روپے کا خریدنا پڑتا ہے۔ ہر بڑا جانور روزانہ 1500 روپے تک کا پانی پی جاتا ہے۔ پانی کی بھی شکایت کی ہے کہ خراب آرہا ہے‘‘۔ بلوچستان سے اونٹ لانے والے تاجر میرو نے کہا کہ ’’اونٹ روزانہ 400 لیٹر پانی پیتا ہے اور یہاں پر فی اونٹ پانی صرف 10 لیٹر ملتا ہے‘‘۔ کشمور سے جانور لے کر آنے والے نذیر احمد کا کہنا تھا کہ منڈی میں آنے والوں کو مختلف طریقے سے پیسے لے کر لوٹا جا رہا ہے۔ طارق نامی بیوپاری کا کہنا تھا کہ منڈی انتظامیہ والے آئے تھے۔ 3 ہزار روپے کی کچی پرچی اس جگہ کی کاٹی اور رقم جمع کراتے ہوئے پرچی ساتھ لے گئے۔ اس کا کہنا تھا کہ صرف رقم بٹوری جا رہی ہے، سہولتیں نہیں دی جا رہیں۔ ایک تاجر رحیم کا کہنا تھا کہ یہاں روٹی 20 روپے کی مل رہی ہے۔ اس لیے وہ پنجاب سے لائے ہوئے راشن سے خود روٹی بنا رہے ہیں۔ بیوپاری برکت کا کہنا تھا کہ یہاں پر صرف وی آئی پی بلاکس میں سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ توقیر کا کہنا تھا کہ جانوروں کو کچرے پر کھڑا کرنا پڑ رہا ہے۔ بارش ہوگی تو جانور بیمار ہو جائیں گے۔ بیوپاری جان محمد کا کہنا تھا کہ یہاں پر انتظامیہ کے اہلکار نہ باہر سے جانوروں کیلئے چارہ، پانی، دانہ لانے دیتے ہیں اور نہ بیوپاریوں کو پانی، روٹی اور دیگر سامان لانے دیتے ہیں۔ توفیق کا کہنا تھا کہ خریدار نہیں آرہے ہیں اور جانوروں پر بہت خرچہ آرہا ہے۔ سردار کا کہنا تھا کہ مویشی منڈی، گاڑی والوں کیلئے لگی ہے کہ موٹر سائیکل کی پارکنگ سپر ہائی وے پر انصاری پل کی جانب سے منڈی جانے والے راستے پر بنائی گئی ہے۔ جہاں سے منڈی ڈیڑھ دو کلو میٹر دور ہے اور اندر 800 ایکڑ پر منڈی پھیلی ہے۔
’’امت‘‘ نے ساری صورت حال کے حوالے سے موقف جاننے کیلئے منڈی کے ٹھیکیدار محمد طاہر میمن سے رابطہ کرنا چاہا، تاہم ملاقات نہیں ہو سکی۔ جبکہ میڈیا سیل کے ذمہ دار نوید کا کہنا تھا کہ لوٹ مار، اسٹریٹ کرائمز کو روکنے کیلئے موٹر سائیکل دور دور پارک کرائی گئی ہیں۔ منڈی میں ایک لاکھ سے زائد جانور آ چکا ہے۔ سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More