لاابالی عمران کیلئے وزیر اعظم ہائوس چلانا چیلنج ہوگا

0

امت رپورٹ
لاابالی طبیعت رکھنے والے عمران خان کے لیے بطور وزیر اعظم اپنی برسوں پرانی عادات اور روزمرہ کے معمولات کو تبدیل کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ جس میں تاخیر سے سو کر اٹھنا اور فائلوں سے عدم دلچسپی سرفہرست ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم بننے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نیشنل کمانڈ اتھارٹی جیسے حساس محکمے سمیت کئی اہم ترین ڈپارٹمنٹس کی سربراہی بھی سنبھالنے والے ہیں۔
عمران خان کے قریبی ذرائع کے مطابق دوپہر گیارہ بارہ بجے سو کر اٹھنا چیئرمین پی ٹی آئی کا برسوں پرانا معمول ہے۔ اگرچہ کسی اہم معاملے یا ضرورت کے تحت عمران خان صبح کے وقت بھی اٹھ جاتے ہیں، تاہم ان کے لیے یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ لہٰذا انہیں یہ ٹائم ٹیبل، روٹین کے طور پر اپنانے کے لیے اپنی زندگی کے سب سے بڑے چیلنج سے گزرنا پڑے گا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ سولہ برس گزارنے والے ایک قریبی ساتھی کے بقول… ’’خان کی عمر اب 65 برس سے زائد ہو چکی ہے۔ لہٰذا ان کی عادتیں اس قدر پختہ ہیں کہ انہیں تبدیل کرنا میرے نزدیک بڑے جوکھم کا کام ہے۔ اور اس کا منفی اثر بطور وزیر اعظم ان کی سرگرمیوں پر پڑ سکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر جب وہ وزیر اعظم ہائوس کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالیں گے تو ان کی یہ پختہ عادتیں سارے نظام کو ٹھپ نہ کر دیں۔ اس کے نتیجے میں دستخط کی منتظر فائلوں کا ڈھیر چھت تک نہ چلا جائے۔ یا کئی اہم فائلوں کو وہ پڑھے بغیر ہی آگے نہ بڑھا دیں۔ فائلوں سے ویسے بھی خان کو بڑی چڑ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے عروج سے پہلے جب پارٹی دفتر کا کام برائے نام ہوتا تھا تو اس وقت بھی عمران خان لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے کے سارے معاملات اپنے دائیں بائیں کے پارٹی عہدیداروں کے حوالے کر دیتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ زبانی بریف کر دو۔ بعدازاں ہم نے خان کو پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لیے انہیں مختلف کتابیں لاکر دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر انہیں کتاب لکھنے پر مائل کیا۔ لیکن اس سلسلے میں ہمیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ فائلوں، پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے سے خان کی بیزاری برقرار رہی۔ اگرچہ ان کی کتابیں مارکیٹ میں آئیں۔ آخری کتاب چار پانچ برس قبل آئی تھی۔ لیکن اسے کسی اور نے لکھا، البتہ پروف ریڈنگ خان نے خود کی۔ لیکن اس کے لیے بھی پارٹی کے ایک عہدیدار کی مدد لی جاتی رہی۔ البتہ چیئرمین پی ٹی آئی بولنے کے بڑے شوقین ہیں۔ شام کے اوقات میں ٹاک شوز یا ٹی وی انٹرویوز انہیں بوجھ نہیں لگتے۔ لیکن اگر معاملہ کسی جریدے یا اخبار کے سوالات کے تحریری جوابات کا ہو تو وہ مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی اخبارات یا جرائد میں شائع عمران خان کے ایسے کئی انٹرویوز ان کے پارٹی عہدیداران نے لکھ کر بھیجے۔ ان ہی میں سے ایک انڈیا ٹوڈے کو کرکٹ سے متعلق دیئے جانے والا انٹرویو بھی شامل ہے۔ انڈیا ٹوڈے نے بذریعہ ای میل سوالنامہ بھیجا تھا۔ اس کے جوابات میں نے لکھے۔ بعد ازاں بھارتی اخبار میں یہ عمران خان کے انٹرویو کے طور پر شائع ہوا‘‘۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ کئی برس گزارنے والے ایک اور قریبی ساتھی نے عمران خان کے روزمرہ معمولات کی تفصیلات یوں بیان کیں… ’’یہ درست ہے کہ خان صاحب عام طور پر دوپہر کو سو کر اٹھنا پسند کرتے ہیں۔ اگرچہ آج کل حکومت سازی کے معاملات پر انہیں بعض اوقات صبح جلدی بھی اٹھنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ان کی کوشش ہوتی ہے کہ حکومت سازی سے متعلق اجلاس بھی زیادہ تر سہ پہر یا شام کو رکھے جائیں‘‘۔ قریبی ساتھی کا مزید کہنا تھا… ’’دوپہر کو بیدار ہونے کے بعد خان صاحب عموماً پہلے جوس پیتے ہیں۔ پھر نصف گھنٹہ واک کرتے ہیں۔ واک کے بعد ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ EXERCISE (ورزش) کرتے ہیں۔ یہ ذاتی جم اور فٹنس سینٹر انہوں نے بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ کے ایک بڑے کمرے میں بنا رکھا ہے۔ جہاں وہ مختلف ویٹ اٹھانے کے علاوہ بینچ پریس اور پھر ٹریڈمل ایکسرسائز مشین پر دوڑتے ہیں۔ ورزش سے فارغ ہو کر دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں۔ کھانے سے فراغت ہوتی ہے تو سہ پہر کے ڈھائی تین بج چکے ہوتے ہیں۔ یہاں سے خان صاحب کے ورکنگ آورز شروع ہوتے ہیں۔ اس دوران ٹی وی چینل پر کوئی انٹرویو ہو تو اسے بھگتاتے ہیں۔ یا پارٹی کے لوگوں سے میٹنگ کرتے ہیں۔ خان صاحب کے کام کے اوقات عموماً چار سے ساڑھے چار گھنٹے پر محیط ہوتے ہیں، جو شام سات بجے تک ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ رات کو دیر گئے تک ہی سوتے ہیں۔ یہ بھی ان کا برسوں پرانا معمول ہے۔ تاہم اگر کوئی اہم انٹرویو، پریس کانفرنس یا کوئی میٹنگ ناگزیر ہو جائے تو وہ اپنے اس ورکنگ آورز میں چند گھنٹے کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل حکومت سازی کے معاملات میں انہیں بحالت مجبوری زیادہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن چونکہ روٹین میں یہ عارضی تبدیلی ان کے برسوں کی عادت کے خلاف ہوتی ہے، لہٰذا وہ نیند پوری نہیں کر پاتے اور اس کے نتیجے میں ان کے مزاج میں چڑچڑاپن آجاتا ہے۔ اس سارے تناظر میں عمران خان کے لیے رات کو جلد سوکر صبح سویرے بیدار ہونے کے بعد 8 سے 9 بجے تک وزیر اعظم ہائوس پہنچنا بڑے جوکھم کا کام ہو گا‘‘۔ قریبی ساتھی کے بقول شروع کے دنوں میں اگر طبیعت پر جبر کر کے عمران خان اپنی روٹین تبدیل کر بھی لیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چڑچڑے پن کو دور کرنے کے لیے کوئی دوا بازار میں دستیاب نہیں۔ جبکہ وزیر اعظم کی ذمہ داریاں فریش طبیعت اور پرسکون مزاج کی متقاضی ہیں۔ قریبی ساتھی کے بقول اس وقت سب سے بڑا سوال ہی یہ ہے کہ 65 سالہ عمران خان جنہوں نے کبھی دفتر کا منہ نہیں دیکھا اور کونسلر جیسی ذمہ داریاں بھی نہیں نبھائیں، وہ وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی پختہ عادات سے کیسے چھٹکارا حاصل کر پائیں گے؟
دلچسپ امر یہ ہے کہ عمران خان دوپہر کے کھانے میں بھی عموماً نصف گھنٹہ لے لیتے ہیں۔ اس کا سبب ان کے کھانے کی رفتار میں کمی نہیں، بلکہ بسیار خوری ہے۔ ایک پارٹی عہدیدار کے بقول عمران خان کافی خوش خوراک واقع ہوئے ہیں۔ گوشت کے وہ حد درجہ شوقین ہیں۔ گوشت سے بنی کوئی بھی ڈش ہو تو ان کا ہاتھ نہیں رکتا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو بالخصوص شوربے والا آلو گوشت بہت پسند ہے۔ اسی طرح خشک گوشت (لاہندی) سے بنائی جانے والی ڈشیں بھی چیئرمین پی ٹی آئی کی مرغوب غذا میں شامل ہیں۔ ایک طویل عرصے تک عمران خان کو LAHNDI فراہم کرنے والے چمن کے ایک دوست کے بقول افغان لاہندی دنبے کے خشک گوشت سے بنائی جاتی ہے۔ جسے نمک لگا کر سکھایا جاتا ہے اور بالکل سیاہ ہونے پر ٹکڑوں میں کاٹ کر ٹوکریوں یا فریج میں رکھ لیا جاتا ہے اور پھر اس لذیذ گوشت کو چاولوں میں ڈال کر یا فرائی کر کے کھایا جاتا ہے۔ اس سے اور بھی مختلف ڈشیں بنتی ہیں۔ سردیوں کے موسم میں لاہندی عمران خان کی پسندیدہ ڈش ہے۔ جبکہ برسوں سے دیسی گھی میں پکایا جانے والا دیسی مرغیوں کا گوشت بھی عمران کے دوپہر کے کھانے کا لازمی جز ہے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سینئر رہنما طارق فضل چوہدری اپنے فارم سے تازہ سبزیاں، دودھ اور مکھن ان کے لیے خاص طور پر بھجواتے رہے ہیں۔ جبکہ قریبی پارٹی رہنما عامر کیانی نے کبھی عمران خان کو تازہ دودھ فراہم کرنے کے لیے راول جھیل کے قریب واقع اپنے آبائی گائوں مال پور میں ایک بھینس بھی پال رکھی تھی‘‘۔
شوکت خانم کینسر اسپتال کے شروع کے عملے کا حصہ رہنے والے ایک ذریعے کے مطابق اسپتال کی فنڈزریزنگ کا کام تو عمران خان بڑی سرگرمی سے کرتے تھے کہ یہ معاملہ سیر سپاٹے اور پارٹیوں سے جڑا ہوتا تھا۔ تاہم لکھنے لکھانے سے متعلق اسپتال کے دفتری کام انہوں نے ہمیشہ دوسروں کے سپرد کئے رکھے۔ اسپتال کے شروع کے دنوں میں عمران اور ان کے دوست شام کو جمع ہو جاتے تھے۔ دعوتیں اڑاتے اور خوب ہلہ گلہ کرتے۔ جس پر عمران خان کے والد مرحوم اکرام اللہ نیازی نے اسپتال کے دفتری معاملات خود سنبھال لیے تھے۔ وہ کرسی لگا کر وہاں بیٹھ جاتے تھے۔ اکرام اللہ نیازی شوکت خانم کینسر اسپتال بورڈ کے بانی چیئرمین بھی تھے۔ ذریعے کے بقول چیئرمین پی ٹی آئی کے دوستوں کی راہ میں اکرام اللہ نیازی رکاوٹ بننے لگے تو انہوں نے اس کی شکایت عمران خان سے کی۔ بعد ازاں عمران خان نے اپنے والد کو بڑے پیار سے یہ کہہ کر ذمہ داری سے ہٹا دیا کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں، لہٰذا آرام کریں۔
بیان کردہ اس سارے سنیاریو میں بطور وزیر اعظم عمران خان کو جو اہم ذمہ داریاں سنبھالنی ہوں گی، ان میں حساس ترین نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی چیئرمین شپ بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ حکومت کی ایگزیکٹو برانچ کو چلاتا ہے۔ اقتصادی ترقی کی نگرانی کرتا ہے۔ قومی اسمبلی کو لیڈ کرتا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی کمانڈ اتھارٹی اس کے پاس ہوتی ہے۔ کابینہ سمیت باہمی مفادات کونسل کی سربراہی بھی کرتا ہے۔ ماضی میں دو وزرائے اعظم کے پرنسپل سیکریٹری رہنے والے ایک سابق بیوروکریٹ کے مطابق کئی اہم وزارتیں اور محکمے ایسے ہیں، جن سے کابینہ کے کسی رکن کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کو وزیر اعظم ہی دیکھتے ہیں۔ ان میں پلاننگ کمیشن، نیشنل کمانڈ اتھارٹی، نیشنل سیکورٹی کونسل، اقتصادی رابطہ کمیٹی، کابینہ کمیٹی برائے قومی سلامتی اور دیگر شامل ہیں۔ ان تمام محکموں کا چیئرمین یا انچارج وزیر اعظم ہوتا ہے۔ سابق پرنسپل سیکریٹری کے بقول وزیر اعظم کے لیے اہم وزارتوں اور محکموں کی فائلوں کو بروقت Put Up کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہر وزیر اور بیوروکریٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے مسئلے سے متعلق فائل کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جائے۔ یہ فائلیں روزانہ کی بنیاد پر وزیر اعظم ہائوس آتی ہیں۔ اگر انہیں بروقت نہ دیکھا جائے تو ڈھیر لگ جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں متعلقہ وزارتوں اور محکموں کا کام ٹھپ ہو جاتا ہے۔ ان فائلوں سے نمٹنے کے لیے مرحوم جنرل ضیاء الحق نہ صرف دفتر میں زیادہ وقت دیتے، بلکہ بہت سی فائلیں اٹھا کر گھر لے جایا کرتے تھے اور رات بارہ بجے سے تہجد کے وقت تک فائلیں دیکھتے رہتے۔ سابق بیوروکریٹ کے مطابق ان اہم ذمہ داریوں کے علاوہ اہم بین الاقوامی وفود سے ملاقاتیں، کابینہ کے اجلاسوں کی سربراہی اور بیرون ملک دوروں کے پروگرامز طے کرنے کے لیے وزیر اعظم کی دفتری اوقات میں وزیر اعظم ہائوس میں موجودگی نہایت اہم ہوتی ہے۔ سابق وزیر اعظم ظفراللہ جمالی کو ہٹائے جانے کے مختلف اسباب میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ وقت پر وزیر اعظم ہائوس نہیں آیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم جمالی کی متعدد شکایتیں پرویز مشرف تک پہنچتی رہتی تھیں۔ جب ان سے ایک بار خود مشرف نے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ رات دیر گئے تک سونا ان کا برسوں کا معمول ہے۔ لہٰذا وہ کوشش کی باوجود بھی صبح بیدار نہیں ہو پاتے اور یوں انہیں وزیر اعظم ہائوس آتے دوپہر کے ڈھائی تین بج جاتے ہیں۔ سابق پرنسپل سیکریٹری کے بقول وزیر اعظم کی بیان کردہ یہ چند اہم ذمہ داریاں ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ کام کا بوجھ بطور وزیر اعظم عمران خان کو اٹھانا پڑے گا۔ اولین معاملہ وقت پر اور پابندی سے وزیر اعظم ہائوس پہنچنے کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس صورت حال سے کیسے نمٹتے ہیں۔ اس سلسلے میں عمران خان کا ٹریک ریکارڈ انتہائی مایوس کن ہے۔ 2013ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد پورے پانچ برس کے دوران عمران خان نے محض 21 بار قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کی۔ جون 2013ء سے جون 2018ء تک قومی اسمبلی کے 56 اجلاس اور 490 بیٹھکیں ہوئیں۔ ان اجلاسوں میں عمران خان کی حاضری کی شرح صرف پونے چھ فیصد رہی۔ اس دوران 23 مئی 2018ء میں فاٹا اصلاحات بل کی منظوری کے لیے بلائے گئے اسمبلی اجلاس میں عمران خان نے پورے دو برس کے وقفے کے بعد شرکت کی۔ تاہم بطور رکن قومی اسمبلی وہ باقاعدگی سے اپنے ماہانہ الائونس وصول کرتے رہے۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More