تیمور اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم دین تھا۔ اس کا طریقہ تھا کہ کسی مسلم شہر پر حملہ کرتے وقت وہاں کی کسی بڑی مسجد یا کسی عالم دین کے گھر کو دارالامان قرار دے دیتا تھا۔ اور فتح کے بعد اپنی جائے قیام پر ایک محفل علما یا محفل عرفا منعقد کرتا اور اس محفل میں دینی مسائل پر یا فقہی نکات پر بحث و مباحثہ ہوتا۔ اگر کوئی حافظ قرآن ہوتا جیسا کہ حافظ شیرازی کے ساتھ تھا، تو اس سے حفظ قرآن کا مقابلہ ہوتا اور ایسے ہر موقعے پر آخر میں یہی ثابت ہوتا کہ ان علما یا حفا میں تیمور کے پائے کا کوئی بھی نہیں ہے۔
مگر ان تمام باتوں کی ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کو خون بہانے یا خون بہتا دیکھ کر جتنا لطف آتا تھا، اتنا لطف اور کسی شے سے نہ حاصل ہوتا تھا۔ اس قتل و غارت گری میں وہ مسلم یا کافر میں بھی تمیز نہ کرتا تھا۔
اس کا طے شدہ اصول مال غنیمت جمع کرنا اور بے دریغ قتل و غارتگری سے خلق خدا پر اپنا رعب بٹھانا تھا۔ اس اصول سے انحراف اس نے صرف دو مقامات پر کیا، ایک ایران کے صوبے مشرقی آذر بائیجان کے شہر شبستر میں وہاں کے رہنے والے شاعر محمود شبستری کی وجہ سے کہ اس کی کتاب ’’گلشن راز‘‘ تیمور کو بہت پسند تھی۔ اور دوسرا مقام ایران ہی کا شہر شیراز تھا کہ اس کے شاعروں بالخصوص سعدی اور حافظ سے اپنے لڑکپن کے زمانے سے ہی اسے بڑی عقیدت تھی۔ اس کی قتل و غارت گری کی ایک بڑی وجہ شاید اس کی چنگیز خان ثانی بننے کی دلی آرزو تھی۔ وہ اپنے آپ کو بڑے فخر سے چنگیز خان کی اولاد کہتا تھا۔ جبکہ حقیقت میں وہ اس کی اولاد سے نہ تھا۔ اور خدا کی قدرت دیکھئے کہ یہ بات اس کی زندگی میں تو کوئی زبان پر نہ لاسکتا تھا، مگر آج اس کی قبر کے مجاور ہر خاص و عام کو یہ بات بہ بانگ دہل بتاتے ہیں۔
امیر تیمور اپنی خود نوشت میں رقمطراز ہے کہ: ’’وہ لوگ جو اس وقت میری سرگزشت پڑھ رہے ہوں یہ مت کہیں کہ مجھ جیسا شخص جو حافظ قرآن ہے اور فقیہ ہونے کا بھی دعویٰ کرتا ہے، کیونکر اتنی بے دردی سے انسانی جانوں کے قتل عام کا حکم جاری کر سکتا ہے۔ جان لو کہ حکومت کرنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں، جو ابتدائے دنیا سے موجود تھے اور جب تک دنیا قائم ہے باقی رہیں گے اور ان میں رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ ان اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ لوگ اپنے حکمران سے ڈرتے رہیں اور چنانچہ حکمران کا خوف عوام کے دلوں میں نہ رہے تو اس کے احکام پر عملدرآمد نہیں ہوگا، جس کے نتیجے میں اوباش و اشرار ملک پر مسلط ہو جائیں گے اور عوام کی جان، مال و ناموس پر دست اندازی شروع کردیں گے۔ میں نے اس غرض سے اہل تاشقند کے قتل عام کا حکم جاری کیا تھا کہ دوسرے شہروں کے لئے عبرت ہو اور وہ جان لیں کہ میرے حکم سے سرتابی کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ مگر میں یہ بات بھی نہیں چھپانا چاہتا کہ اپنے دشمنوں کا خون بہتا دیکھ کر مجھے ایک خاص لذت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ لذت جو دوسرے لوگ شراب پی کر محسوس کرتے ہیں، مجھے دشمنوں کا خون بہتا دیکھ کر محسوس ہوتی ہے اور میرا تن من ایک سرور آگیں نشے میں ڈوب جاتا ہے۔ مجھے دشمنوں کا خون بہا کر لطف محسوس ہوتا ہے اور خونریزی کے ذریعے ہی اپنے ملک کا نظم و نسق بھی چلاتا ہوں۔ سب لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ میری نافرمانی کرنے والے بلا تامل جلاد کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں۔ آج تین ہزار جلاد جن کے نام رسمی طور پر سرکاری دفاتر میں درج ہیں میرے وسیع و عریض ملک کے گوشے گوشے میں اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ مجرموں کی سزا دیں، ان کی گوشمالی کریں یا انہیں سزائے موت کے گھاٹ اتار دیں۔ اس سخت اور بے لچک رویے کے بہت سے فوائد ہیں اور آج تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو کہ ایک تجارتی قافلہ انگوریہ سے نکلتا ہے اور کسی حفاظتی سپاہ کے بغیر سمرقند پہنچ جاتا ہے اور طویل راستے میں کسی کو اس کارواں کے مال پر بری نظر ڈالنے کی جرات نہیں ہوتی۔ (انگوریہ کو کچھ مؤرخین نے ’’انگورانی‘‘ بھی تحریر کیا ہے۔ وہی شہر ہے جو بعد میں انقرہ کے نام سے مشہور ہوا اور آج ’’انکارا‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ مترجم)۔ تم چاہو تو سونے کے سکوں سے بھری تھالی کسی نابالغ بچے کے سر پر رکھ دو اور اس سے کہو کہ میرے ملک کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب کی طرف پیدل اور اکیلا سفر کرے۔ جب کئی سال گزر جائیں اور وہ کمسن بچہ سن بلوغت کو پہنچ جائے تو تم دیکھو گے کہ اس طویل مدت میں سونے کا ایک بھی سکہ کم نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری حکمرانی کے علاقے میں کسی کو حتیٰ کہ ایک بچے کے مال پر نظر ڈالنے کی جسارت نہیں ہوتی۔ آیا تم نے کبھی سنا ہے کہ میرے وسیع و عریض ملک میں کہیں چوری کی واردات ہوئی ہو یا کوئی چور کسی کے گھر یا دکان میں داخل ہوا ہو؟ مجھے یقین ہے کہ تم نے ایسا کوئی واقعہ نہیں سنا ہوگا۔ مگر صرف اس زمانے میں کہ میں ابھی مشرق و مغرب کا سلطان نہیں بنا تھا!
میں نے چوری کی روک تھام کے لئے ایک طریقہ ایجاد کیا ہے جو آنے والے بادشاہوں اور حکمرانوں کے لئے سر مشق بن سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جہاں کہیں چوری کی واردات ہو تو میں اس علاقے کے داروغہ یا کوتوال کے ہاتھ کٹوا دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جب تک کوئی داروغہ چور کا ہمدست نہ ہو یا اپنے کام میں غفلت نہ کرے تو اس وقت تک چوری نہیں ہو سکتی۔ میں نے اپنے وسیع و عریض ملک میں رہزنی و ڈکیتی اور شہروں میں چوری و گدائی کا یکسر خاتمہ کر دیا ہے اور آج تمہیں میرے ملک میں ایک بھی بھکاری نظر نہیں آئے گا۔
میں نے گداگری کا خاتمہ اس طرح کیا کہ سارے مستحق فقیروں کے لئے سرکاری وظیفہ مقرر کردیا۔ مستحق فقیر وہ ہیں جو اعضائے بدن کے ناقص ہونے یا اندھا ہونے کے باعث کام نہیں کرسکتے۔ میں جانتا تھا کہ جس شخص کو گدائی کی لت پڑ جائے تو وہ سرکاری وظیفے پر قناعت نہیں کر سکتا اور دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے باز نہیں آسکتا۔ اسی لئے میں نے وظیفہ حاصل کرنے والے بھکاریوں کو خبردار کر رکھا تھا کہ اگر انہیں دوبارہ بھیک مانگتے دیکھا گیا تو کسی عذر کے بغیر ان کی گردن اڑا دی جائے گی۔ لہٰذا وہ بھکاری جو وظیفہ حاصل کرنے کے باوجود بھیک مانگنے سے دستبردار نہیں ہوئے تو میرے حکم سے معدوم کر دیئے گئے۔ البتہ ایسے گداگر جو کام کرنے کے قابل تھے، انہیں مختلف کاموں پر لگادیا گیا اور جن لوگوں نے کام سے جی چرایا تو انہیں بھی ملک عدم روانہ کردیا گیا۔
آج میری حکمرانی کے پورے علاقے میں آل محمدؐ یعنی اولاد رسولؐ میں سے کوئی ایک ایسا نہیں پاؤ گے جو معاشی بدحالی کا شکار ہو جبکہ مجھ سے پہلے سینکڑوں بلکہ ہزاروں سادات اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کی غرض سے بھیک مانگنے پر مجبور تھے۔ میں جو خاندان رسالتؐ سے بے پناہ عقیدت رکھتا ہوں، یہ بدحالی برداشت نہیں کرسکتا۔ لہٰذا میں نے ’’خمس‘‘ کے حصے سے تمام مستحق خاندانوں کے لئے وظیفہ مقرر کردیا اور ان کی معاشی کسمپرسی کا سدباب کردیا۔
آج تم میرے ملک کے سوا کوئی اور خطہ زمین ایسا نہیں پاؤ گے جہاں اتنی خوشحالی اور امن و سلامتی کا دور دورہ ہو۔ میری سطلنت سے پہلے میری رعایا نے اتنی فارغ البالی اور آسودہ حالی کا زمانہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ان پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی سرکاری کارندہ یا کوتوال یا داروغہ کسی رعایا کے گھر میں گھس جائے اور گزشتہ کی طرح اس سے کھانے پینے کی چیزیں یا کوئی اور شے بطور رشوت طلب کرے تو میں اس کا سر بدن پر نہیں رہنے دیتا۔ اسی طرح اگر کوئی سپاہی یا قانون کا محافظ کسی سے کوئی چیز خریدے اور اس کی قیمت مروجہ نرخ کے مطابق ادا نہ کرے تو اس کا سر بھی پیکر سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ میرے جلاد عوام کو پریشان کرنے کے لئے نہیں، بلکہ سرکاری کارندوں اور قانون کے محافظوں کی خلاف ورزیوں پر ان لوگوں کو سخت سزا دینے کے لئے ہمہ وقت چوکس و آمادہ رہتے ہیں‘‘۔ (میں ہوں تیمور، صفحہ 71) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post