برطانیہ میں نیپالی خواتین کو جنگجو بنانے کی تیاری

0

برطانیہ نے نیپال سے تعلق رکھنے والی گورکھا خواتین کو جنگجو بنانے کی تیاری کرلی ہے۔ لڑکیوں کو جدید اسلحہ اور روایتی ہتھیار ’’کھکھری‘‘ کے استعمال کی تربیت دے کر برطانیہ کے زیر تحت گورکھا رجمنٹ میں شامل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ گورکھا رجمنٹ نامی مخصوص نیپالی بریگیڈ نے 200 برس کے دوران برطانوی افواج کیلئے متعدد جنگیں لڑیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں برطانوی حکومت تقسیم ہند کے موقع انہیں اپنے ساتھ لندن لے گئی تھی۔
نیپالی جریدے کٹھمنڈو پوسٹ کے مطابق برطانوی مسلح افواج کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے والے نیپالی جنگجوئوں کی گورکھا رجمنٹ اب ایک نئے انداز میں جلوہ گر ہونے والی ہے، جس کے تحت ’’گورکھا‘‘ کہلائے جانے والے نیپالی مرد جنگجوئوں کے ساتھ نیپالی لڑکیاں بھی دور جدید کی جنگجو ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں، تاکہ وہ روایتی گولہ بارود کے استعمال سمیت جدید اسلحہ اور الیکٹرونک ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ قدیمی گورکھا ہتھیار ’’کھکھری‘‘ (خم دار بڑے چاقو)کے استعمال کی بھی ماہر ہو جائیں۔ یہ ہتھیار گورکھا جنگجو مخالفین یا حملہ آور کا پیٹ پھاڑنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلی بار ’’اینگلو نیپال جنگ‘‘ سے قبل 1815 میں گورکھا رجمنٹ قائم کی تھی، جس کے برطانوی مفادات کیلئے کامیاب استعمال کو دیکھتے ہوئے 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر نیپال، بھارت اور برطانیہ کے ایک باہمی معاہدے کے تحت پوری ’’گورکھا رجمنٹ‘‘ کو بطور خاص بھارت یا نیپال کو دینے کے بجائے لندن منتقل کر دیا گیا تھا اور بعد ازاں اس کا نام تبدیل کر کے ’’بریگیڈز آف گورکھا‘‘ رکھا گیا۔ برطانوی حکومت اور وزارت دفاع کی جانب سے گورکھا جنگجو خواتین کی ایک نئی رجمنٹ بنانے کے احکامات جاری کئے جا چکے ہیں اور اس سلسلے میں برطانوی افواج کی گورکھا رجمنٹ میں نیپالی لڑکیوں کی شرکت کیلئے ٹریننگ جاری ہے۔ جس کے بعد منتخب امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرکے تاریخی گورکھا رجمنٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ برطانوی وزیر دفاع گیوین ولیم سن کا کہنا ہے کہ گورکھا خواتین کی رجمنٹ کے قیام کیلئے ملکہ برطانیہ کی خواہش کا عمل دخل بھی شامل ہے اور ان کا استدلال ہے کہ گورکھا رجمنٹ میں خواتین کی شمولیت سے انہیں فخر محسوس ہوگا۔ ادھر نیپالی حکومت نے خواتین گورکھائوں کی بھرتی کیلئے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اس حوالے سے برطانوی ڈپٹی چیف آف اسٹاف اینڈ کرنل کمانڈنٹ برائے گورکھا بریگیڈ لیفٹیننٹ جنرل نک پوپ کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت کے ایک فیصلہ کے تحت خواتین کی بھی گورکھا رجمنٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، جس کا مقصد خواتین فوجیوں کو با مقصد محاذ اور کارگزاریوں تک رسائی دینا ہے۔ واضح رہے کہ برطانوی گورکھا رجمنٹ میں نیپالی جنگجو بڑی تعداد میں شامل ہیں، جنہیں ماضی کی طرح اب بھی برطانوی مفادات کی جنگ کا ایندھن بنایا جارہا ہے، لیکن برطانوی شاہی خاندان سے محبت اور عقیدت رکھنے والے نیپالی گورکھا جنگجوئوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ دنیا انہیں ’’بھاڑے کا برطانوی ٹٹو‘‘ کہہ کر پکارتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق شام اور افغانستان کی جنگوں میں بھی ہزاروں کی تعداد میں ان کرائے کے گورکھا جنگجوئوں کو استعمال کیا جا چکا ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق گورکھا رجمنٹ میں اس وقت تین ہزار سے زائد گورکھا فوجی خدمات انجام دے رہے ہیں، جن کی اکثریت اگرچہ انفینٹری میں ہے، لیکن ان کی ایک مخصوص تعداد فوج کے شعبہ انجینئرنگ، لاجسٹک اور کمیونکیشن میں بھی کام کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں مقامی جریدے کانتی پور ایکسپریس نے بتایا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے 2020ء میں گورکھا خواتین کی الگ رجمنٹ کا باقاعدہ افتتاح کیا جائے گا، جس میں تین ہزار نیپالی لڑکیاں شامل کی جائیں گے اور ان کی اولین کمانڈر برطانوی خواتین عسکری کمانڈرز کو بنایا جائے گا۔ بعد ازاں اس کمانڈ کی باگ ڈور مستقل طور پر نیپالی گورکھا خواتین کو سونپ دی جائے گی۔ برطانوی جریدے ڈیلی میل کے مطابق اس بھرتی پروگرام کے سلسلہ میں گورکھا خدمات انجام دینے والے سابق و موجود فوجیوں اور افسران کو مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کی گورکھا رجمنٹ کے قیام کیلئے امسال 2018ء میں کسی بھی وقت نیپالی اور برطانوی اخبارات میں اشتہار شائع کروایا جائے گا اور اگلے برس 2019ء کے اوائل میں برطانوی عسکری ماہرین نیپال کے وسطی کٹھمنڈوکے علاقہ پوکھارا کا دورہ کریں گے۔ دورے کے دوران خواتین گورکھا رجمنٹ میں شمولیت کی خواہاں نیپالی لڑکیوں کے مختلف ٹیسٹ لئے جائیں گے۔ واضح رہے کہ نیپالی لڑکیاں ’’گورکھا جنگجوئوں‘‘ کی صف میں شمولیت اور خونریز جنگوں میں اپنی بہادری کا لوہا منوانے کیلئے بہت جوش و خروش کا اظہار کر رہی ہیں۔ بعض لڑکیوں نے ابھی سے ٹریننگ شروع کر دی ہے۔ غیر شادی شدہ خواتین 25 کلو گرام وزن اٹھا کر پہاڑی سلسلہ میں پانچ کلو میٹر تک بھاگنے کی مشقوں سمیت، کراٹے اور جوڈو کی ٹریننگ بھی کر رہی ہیں۔ کٹھمنڈو کے نواحی علاقہ سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ کوشلیا کماری کا کہنا ہے کہ انہیں نیپالی حکام نے بتایا ہے کہ ہم میں سے جن لڑکیوں کو خواتین کی گورکھا رجمنٹ کیلئے سلیکٹ کیا جائے گا، ان کو دستاویزات اور پاسپورٹ کی تیاری کے بعد اگلے تین ماہ میں برطانیہ کے علاقے نارتھ یارک شائر میں ایک فوجی ٹریننگ کیمپ میں بھیجا جائے گا جہاں ان کی باقی ماندہ تربیت کی جائے گی اور فوج میں پاس آئوٹ کیلئے ان کو تیار کیا جائے گا۔ ڈیلی میل کے مطابق گورکھا رجمنٹ ہندوستان پر دو صدی قبل حکومت کرنے والے برٹش راج نے قائم کی تھی جس کا مقصد مقامی اور غیر مقامی خطرات سے نمٹنا تھا۔ اس سلسلہ میں گورکھائوں کی برٹش راج اور شاہی خاندان کیلئے وفاداری کا اعتراف سابق و موجود درجنوں برطانوی عسکری کمانڈرز بھی کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ گورکھائوں کو ہمیشہ آخری حربہ کے بطور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More