وجیہ احمد صدیقی
باوثوق ذرائع کے مطابق سینیٹ چیئرمین کی تبدیلی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اعتماد کا رشتہ اب تک نہیں قائم ہوسکا ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہی نواز لیگ کو مارچ میں اپنا چیئرمین سینیٹ لانے میں دشواری ہوئی تھی۔ نواز لیگ کی جانب سے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو دوبارہ منتخب کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا تھا۔ لیکن آصف علی زرداری نے اسے مسترد کردیا اور چیئرمین سینیٹ کی جگہ پیپلز پارٹی کے لیے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تعیناتی پر بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ سودا کرلیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صادق سنجرانی کو پیپلز پارٹی نے ہی چیئرمین سینیٹ بنوایا تھا۔ اب پیپلز پارٹی کوسندھ میں اپنی حکومت واپس مل گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی نمائندگی مل گئی ہے۔ اس لیے وہ صادق سنجرانی کی جگہ میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ بنوا کر اسٹیبلشمنٹ سے ناراضگی مول لینا نہیں چاہتی۔ ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری نے اپنے سارے پتے اب تک نہیںکھیلے۔ دراصل پیپلز پارٹی نواز لیگ کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے پیپلز پارٹی کو حکومت سازی میں دعوت نہ دیئے جانے کے باوجود پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے لیے کوئی مشکلات نہیں پیدا کرنا چاہتی۔ البتہ اپوزیشن کی قیادت اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ نواز لیگ سے لے کر تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت کی تھی، لیکن پیپلز پارٹی کی جانب سے نہ آصف زرداری شریک ہوئے اور نہ ہی بلاول زرداری، حالانکہ دونوں ان دنوں میں اسلام آباد میں موجود تھے اور کسی اہم کام میں بھی مصروف نہیں تھے۔ یہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری یا بلاول زرداری نے مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف سے اب تک ملاقات نہیں کی ہے۔ حالانکہ فیصلے انہی دونوں جماعتوں کو کرنے ہیں۔ ذرائع کے بقول دونوں بڑی جماعتیں پارلیمنٹ میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کر نے کی مخالف ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پیر کے دن نواز لیگ پی پی اور پی ٹی آئی کی اپنی اپنی پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس ہوا۔ نواز لیگ نے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے شہباز شریف کے نام کا اعلان کیا ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی اسپیکر کیلئے خورشید شاہ کے نام پر وزیراعظم کیلئے عمران خان کو ووٹ دینے پر سودے بازی کر سکتی ہے۔ کیونکہ اسپیکر کا الیکشن خفیہ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور وزیر اعظم کا انتخاب اوپن ووٹنگ سے ہوتا ہے۔ خورشید شاہ کے ووٹ ظاہر کریں گے کہ اپوزیشن اتحاد کس حد تک مضبوط و مستحکم ہے۔ ایک سوال پر لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کے انتخاب کی حکمت عملی اس وقت بنائی جائے گی، جب نئی حکومت کا قیام ہو جائے اور صحیح سیاسی صورت حال سامنے آجائے۔ اس کے بعد نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے سربراہوں کی آپس میں ملاقات بھی ہوجائے۔ تب ہی صدارتی امیدوار کے لئے کسی نام پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن کی خواہش ہے کہ انہیں پاکستان کے صدر کے عہدے کے لیے اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار نامزد کیا جائے۔ کیونکہ صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین کی تعداد حکومتی اراکین سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کو اپنا صدر منتخب کروانے میں مشکلات ہوسکتی ہیں۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت دوسری اپوزیشن پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کے فیصلوں کی پابند نہیں اور وہ نئے صدر کے انتخاب میں تحریک انصاف کا ساتھ دے سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تو پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے بھی مسلم لیگ ن کا بھی ساتھ نہیں دیا ہے۔ حالانکہ پنجاب میں نواز لیگ کے منتخب صوبائی اراکین اسمبلی کی تعداد تحریک انصاف کے منتخب اراکین کی تعداد سے زیادہ ہے۔ اگر پیپلز پارٹی نون لیگ کا ساتھ دیتی تو پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے آزاد اراکین مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لیتے۔ لیکن اب ان کی توجہ کا رخ تحریک انصاف کی طرف ہے۔ پھر نواز لیگ نے 8 اگست کو الیکشن کمیشن کے دفاتر کے سامنے دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کے لیے اپنے تمام ٹکٹ ہولڈرز کو بلوایا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے اپنے ٹکٹ ہولڈرز سے رابطہ کیا ہے اور نہ ایسی کوئی اپیل کی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس احتجاج سے اپوزیشن کی قوت کا صحیح اندازہ ہوگا کہ اپوزیشن کے اراکین کا اتحاد کتنا مضبوط ہے۔ نواز لیگ کے ایک اہم رہنما نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ہمارا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح میاں نواز شریف کو جیل سے نکالا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف نے پنجاب میں حکومت بنانے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی اور اب نواز لیگ تحریک انصاف کے خلاف پہلے کی طرح پروپیگنڈا بھی نہیں کرے گی۔ گزشتہ روز (پیر کو) لاہور میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی الیکشن 2018ء کے لئے مقرر کی گئی میڈیا ٹیم کو فارغ کر دیا جائے۔ نواز لیگ نے میڈیا سے ریٹائر افسران، صحافیوں اور ٹیکنیکل اسٹاف کو میڈیا سیل میں رکھا تھا، جبکہ میڈیا سیل کی سربراہی سینیٹر مشاہد حسین سید کر رہے تھے اور ان کے ساتھ مریم اورنگزیب معاون کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مذکورہ سیل میں سوشل میڈیا سیل کے لیے بھی متعدد افراد کو رکھا گیا تھا، جو ملکی و غیر ملکی میڈیا کو مانیٹر کرتے تھے۔
٭٭٭٭٭