پی ٹی آئی کراچی قیادت کو 6 سیٹوں کی توقع تھی

0

امت رپورٹ
تحریک انصاف کراچی کی قیادت اب تک اس حیرت سے باہر نہیں نکل پائی ہے جو اسے کراچی میں قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی دو درجن کے قریب سیٹیں جیتنے کے بعد ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی کراچی چیپٹر کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کے حلقوں میں اب تک اس غیر متوقع فتح پر گفتگو جاری ہے اور مختلف تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ ایک پارٹی عہدیدار کے بقول پارٹی کے قریباً 8 سے 9ایسے امیدوار تھے، جو مایوس ہو کر گھروں کو چلے گئے تھے۔ ان میں سے بعض سارے دن کے تھکے ہارے تھے اور ان کی آنکھ لگ گئی تھی۔ تاہم جب انہیں اچانک جگا کر بتایا گیا کہ وہ الیکشن جیت چکے ہیں تو کافی دیر تک تو انہیں اپنے کانوں پر اعتبار نہیں آیا۔ ذرائع کے مطابق ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم پر پارٹی کے نظریاتی کارکنوں و عہدیداروں نے جو ہنگامہ کیا تھا، اس سے نمٹنے کے لئے چند احتجاجی عہدیداروں کو ٹکٹ الاٹ کر دیئے گئے تھے۔ تاہم جان چھڑانے کے لئے انہیں ایسے حلقوں کے ٹکٹ الاٹ کئے گئے، جہاں سے پی ٹی آئی کی جیت کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن بیشتر امیدوار حیرت انگیز طور پر سیٹ نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان میں ہی این اے 252 سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کرنے والے امیدوار آفتاب جہانگیر بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے لڑ جھگڑ کر ٹکٹ حاصل کیا تھا۔ ذرائع کے بقول نئی حلقہ بندیوں کے بعد 252 کی اضافی سیٹ تخلیق کی گئی۔ ماضی میں اس حلقے کا بڑا حصہ اورنگی ٹائون پر مشتمل تھا۔ اور پچھلے دو الیکشنوں میں یہاں سے ایم کیو ایم کا امیدوار کامیاب ہوتا رہا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 252 میں ساٹھ فیصد دیہات اور گوٹھوں کی آبادی بھی شامل کر دی گئی اور زیادہ امکانات پیپلز پارٹی کے امیدوار کے جیتنے کے تھے۔ تاہم آفتاب جہانگیر نے میدان مار لیا۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی طرح پی ٹی آئی کراچی چیپٹر کی قیادت کو این اے 254 (عزیز آباد) کی سیٹ حاصل کرنے کی بھی بالکل توقع نہیں تھی۔ کراچی قیادت کے اہم رہنمائوں میں سے کسی نے بھی اردو اسپیکنگ علاقوں پر مشتمل اس حلقے کا رخ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ پارٹی ٹکٹ اپنے ایک ایسے امیدوار کو دیا گیا جس کی پی ٹی آئی سے وابستگی کی بنیاد اس کا ایکو سائونڈ سسٹم ہے۔ کراچی میں پی ٹی آئی کے تمام جلسوں اور تقریبات کے لئے محمد اسلم خان کا ایکو سائونڈ سسٹم استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ایک مقامی پارٹی عہدیدار کے مطابق اسلام آباد میں 2014ء میں دیئے جانے والے دھرنے سے یکجہتی کے لئے کراچی میں پہلا دھرنا سی ویو پر دیا گیا تھا۔ اس دھرنے میں محمد اسلم نے اپنا ایکو سائونڈ سسٹم پارٹی کو مفت میں فراہم کیا تھا۔ جس کے بعد سے وہ عمران خان اور بالخصوص پارٹی کی کراچی قیادت کی گڈ بک میں آ گیا۔ اور پھر وہ دن ہے اور آج کا دن۔ کراچی میں پی ٹی آئی کے تمام جلسوں اور تقریبات میں محمد اسلم کا ایکو سائونڈ سسٹم ہی استعمال ہوتا آ رہا ہے۔ عہدیدار کے بقول محمد اسلم کو خوش کرنے کی خاطر ایم کیو ایم کے مضبوط گڑھ عزیز آباد میں الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ دے دیا گیا۔ محمد اسلم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کا امیدوار بن جائے گا۔ لہٰذا اس کے لئے ٹکٹ ملنا ہی بہت بڑی بات تھی چہ جائیکہ ایم کیو ایم کے گڑھ میں سیٹ بھی مل گئی۔ عہدیدار کے بقول اس غیر متوقع جیت پر محمد اسلم پھولے نہیں سما رہا تھا کہ اس کے اشتہاری ہونے کی خبر میڈیا میں چل گئی۔ اب اس کے مقابلے میں ہارنے والے ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار شیخ صلاح الدین نے اسی بنیاد پر پٹیشن دائر کر رکھی ہے اور پھوکٹ ملنے والی اس کامیابی پر خطرے کی تلوار لٹک گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن سے پہلے پارٹی کے اندر ہونے والی ڈسکشن میں علی زیدی کی کامیابی کی توقع بھی نہیں کی جا رہی تھی۔ کیونکہ گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں وہ یو سی چیئرمین شپ کا الیکشن تک ہار گئے تھے۔ حالانکہ انہوں نے یہ الیکشن سولجر بازار کے علاقے سے لڑا تھا، جہاں اہل تشیع افراد کی اکثریت ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی کے جن کامیاب امیدواروں کو اپنی جیت کی بالکل توقع نہیں تھی، ان میں جمیل احمد خان، محمد اکرم، فہیم احمد، عطاء اللہ خان، آفتاب جہانگیر، محمد اسلم خان اور دیگر شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول اگرچہ کراچی میں تو تحریک انصاف کو ریوڑیوں کی طرح قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹیں مل گئیں۔ تاہم اندرون سندھ اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والا لیاقت جتوئی جیسا بڑا نام بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔
عمران خان نے اگرچہ حتمی طور پر ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ مختلف شہروں کے پانچ حلقوں سے جیتنے والی اپنی کون سی چار نشستیں خالی کریں گے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی چیئرمین کراچی کی سیٹ چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور ان کی خواہش ہے کہ اس سیٹ سے ایم کیو ایم چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے عبدالرشید گوڈیل کو ضمنی الیکشن لڑایا جائے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کی طرف سے این اے 243 کی نشست خالی کی جاتی ہے تو اس پر ’’فکس اٹ‘‘ کے حوالے سے مشہور عالمگیر محسود نے بھی اپنی نظریں جمائی ہوئی ہیں۔ اسی طرح ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہنے والے پی ٹی آئی رہنما سبحان علی ساحل کی خواہش بھی ہے کہ اس خالی کردہ نشست پر اسے موقع فراہم کیا جائے۔ تاہم ذرائع کے بقول عالمگیر محسود کے امکانات اس لئے کم ہیں کہ پہلے ہی ان کا ایک کزن سیف الرحمن سہراب گوٹھ سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا رکن بن چکا ہے۔ یہ وہی سیف الرحمن ہیں، جنہوں نے نقیب اللہ کے قتل کے بعد احتجاجی دھرنے کی ترجمانی سنبھالی تھی۔ ذرائع کے مطابق دوسری جانب عمران اسماعیل کی پوری کوشش ہے کہ وہ سندھ کی گورنر شپ حاصل کر لیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ذاتی طور پر بھی پارٹی چیئرمین سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ قبل ازیں اس دوڑ میں نعیم الحق بھی شامل تھے۔ تاہم اسلام آباد میں موجود پارٹی ذرائع کے مطابق عمران خان اپنے دیرینہ اور قابل اعتماد دوست کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ نعیم الحق پہلے ہی پارٹی چیئرمین کے مشیر کے طور پر کام کر رہے ہیں اور بطور وزیر اعظم عمران خان کے حلف اٹھانے کے بعد غیر اعلانیہ طور پر نائب وزیر اعظم کا کردار ان کے پاس ہو گا۔ ذرائع کے مطابق ممتاز بھٹو کی خواہش بھی تھی کہ سندھ کی گورنری انہیں مل جائے۔ اس سلسلے میں ان کے اسلام آباد جانے کی خبریں بھی چلیں۔ لیکن تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ صحت کی خرابی کے باعث وہ اس دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More